"KMK" (space) message & send to 7575

جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے

ویسے تو یہ عمومی انسانی فطرت ہے کہ بندہ اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور ناکامیوں کا ملبہ ہمیشہ دوسروں کے سر پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہم پاکستانی بحیثیت قوم اس کام میں شاید دنیا میں نمبر وَن کے مرتبے پر فائز ہیں۔ ہم اپنی تمام تر خرابیوں کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہیں‘ اپنی کوتاہیوں کا ملبہ اداروں پر ڈالتے ہیں اور اپنی ناکامیوں کا رخ اپنے لیڈروں کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ خدانخواستہ اس سے یہ مطلب ہرگزنہ نکال لیجئے گا کہ میں حکمرانوں کو‘ اداروں کو اور لیڈروں کو اس ملک کی اجتماعی ناکامیوں‘ نالائقیوں‘ نااہلیوں‘ غلطیوں اور کوتاہیوں سے بری الذمہ قرار دے رہا ہوں۔ میرا مطلب صرف اتنا ہے کہ جو کام ہمارے کرنے کے ہیں‘ جو ذمہ داریاں ہماری ہیں اور جو فرائض بحیثیت فرد ہمارے ذمے ہیں‘ ہم ان کو سرانجام دینے میں نہ صرف یہ کہ بری طرح ناکام ہیں بلکہ ہمیں اپنی ان غلطیوں‘ کوتاہیوں‘ نالائقیوں اور ناکامیوں کا احساس تک نہیں ہے۔
ہماری دنیا بھر میں جو ذلت و رسوائی اور جگ ہنسائی ہو رہی ہے اس کے بنیادی ذمہ دار ہم پاکستانی خود ہیں۔ سرکار اپنی حد تک تو صرف دوست ممالک سے مسلسل قرض‘ امداد اور ادھار کا تیل لینے کے لیے بدنام ہے لیکن دنیا بھر میں سبزپاسپورٹ کی جو بے توقیری اور رسوائی ہو رہی ہے‘ کم از کم اس کی حد تک سراسر ہم لوگ ہی اس کے بنیادی ذمہ دار ہیں۔ اس سلسلے میں بھی حکومت اور حکمرانوں کو موردِ الزام ٹھہرانا بہرحال ناانصافی ہوگی۔ دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر ہونیوالی بے عزتی‘ ویزہ ملنے میں مشکلات اور روز افزوں مشکل تر ہوتے ہوئے سفری حالات کے پیچھے دوسرے ممالک میں جاکر غائب ہونا‘ یورپ میں بلا ویزہ داخل ہونے کے لگاتار اور لاتعداد واقعات میں ہماری مستقل موجودگی‘ خلافِ قانون سرگرمیوں میں حصہ لینا‘ پُرتشدد واقعات میں ملوث ہونا اور بیرونِ ملک جیلوں میں بند پاکستانیوں کی ہوشربا شرح فیصد ہم پر عائد ہونے والی سفری مشکلات کا بنیادی سبب ہیں۔ یہ سارے واقعات دنیا بھر میں ہماری اجتماعی‘ اخلاقی اور سماجی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں آخر حکومت اور حکمران ہمارے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے جو سب سے بڑا مطالبہ کیا تھا وہ سعودی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے پاکستانیوں کی رہائی کا تھا؛ تاہم اس درخواست کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا اور صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بھی سعودی عرب کی جیلوں میں جو غیرملکی مختلف جرائم کے نتیجے میں قید ہیں‘ ان میں غالب اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔ جرائم میں ملوث پاکستانیوں کی شرح کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ سعودی عرب میں 18لاکھ کے لگ بھگ بھارتی جبکہ اسکے مقابلے میں تقریباً 12لاکھ پاکستانی ورکرز ہیں لیکن سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی تعداد بھارتیوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور ان میں سے اکثریت منشیات کی سمگلنگ‘ چوری اور گدا گری کے جرم میں قید ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا جرم نہیں ہے جس کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان یا حکمرانوں پر عائد کی جا سکے۔ ہاں! پاکستانی ایئرپورٹس پر چیکنگ اور نگرانی کے نظام کو مزید سخت اور مؤثر کرنا یقینا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ان جرائم کا مکمل قلع قمع بہرصورت سو فیصد ممکن نہیں ہے۔
اب گدا گری کو لے لیں۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں جانے والے پاکستانیوں کی اکثریت ورکر اور مزدور پیشہ افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں عمرے کے ویزے پر جانے والے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بڑی مشکل سے برسوں تک پائی پائی جوڑ کر عمرے کا خرچہ اکٹھا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی میں شاید پہلی اور آخری بار ہوائی سفر کرتے ہیں۔ عسرت اور معاشی حالات ان کی شکل سے ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں بھلا عمرے پر جانے والے اس قسم کے حقیقی زائرین اور پیشہ ور گداگروں کے درمیان تخصیص کرنا کہاں ممکن ہے؟ اس سلسلے میں ملوث ٹریول ایجنٹس کے خلاف زیروٹالرنس کے اصول پر کارروائی از حد ضروری ہے لیکن عدالتوں سے ملنے والے حکم امتناعی اور متعلقہ اداروں کی طرف سے کمزور پیروی کے باعث یہ سلسلہ ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران سعودی عرب میں چار ہزار سے زائد گدا گر گرفتار کیے گئے ہیں اور ان میں سے 80فیصد سے زائد پاکستانی ہیں۔
اڑھائی‘ تین عشرے ہوتے ہیں متحدہ عرب امارات میں پاکستانی روپیہ چلتا تھا۔ بازاروں‘ دکانوں‘ ہوٹلوں اور دفتروں میں اردو‘ عربی کے بعد دوسری بڑی مستعمل اور مقبول زبان تھی۔ دبئی دوسرا کراچی دکھائی دیتا تھا۔ پھر کراچی اور دبئی‘ دونوں کو نظر لگ گئی۔ دونوں جگہ ہم ہی نے خود کو برباد کیا۔ صورتحال یہ ہے کہ تھوڑا عرصہ پہلے دبئی میں 23ممالک کے مسافروں کو ایئرپورٹ پر ویزہ حاصل کرنے کی سہولت حاصل تھی اور ہم ان 23ممالک میں شمار نہیں ہوتے تھے۔ پھر گزشتہ ماہ مزید 87ممالک کے پاسپورٹ یافتگان کو اس سہولت سے بہرہ مند فرمایا گیا۔ اب کُل 110ممالک کے پاسپورٹ رکھنے والے شہری دبئی ایئرپورٹ پر اُتر کر آرام سے ویزہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم ان 110ممالک میں بھی کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ گویا معاملہ تین اور 13سے نکل کر 110پر پہنچ گیا تو بھی ہم کسی شمار قطار میں نہیں ہیں بلکہ اسی پر کیا موقوف کہ ہمیں ایئرپورٹ پر ویزہ لینے والوں میں شامل نہیں کیا گیا‘ ہم وہ ملک ہیں جس کیلئے کئی بار ویزہ سرے سے ہی بند کر دیا گیا۔ویزہ نہ دینے سے یاد آیا کہ قریب 33سال قبل جب وسطی ایشیائی ریاستیں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد آزاد ہوئیں تو وہاں تجارت کا بہت بڑا میدان خالی تھا۔ بہت بڑا شور مچا کہ پاکستان اس خلا کو پورا کر سکتا ہے۔ لاہور اور اسلام آباد سے تاشقند کیلئے ہفتے میں تین تین پروازیں چلتی تھیں۔ پھر ہمارے پاکستانی بھائیوں نے خدا جانے کیا کرشمہ دکھایا کہ آج کل از بکستان والوں نے پاکستانیوں کیلئے ویزہ مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ میں اور ڈاکٹر عنایت اللہ گزشتہ کئی سال سے سمر قند‘ بخارا اور خیوا جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور ہر سال میری وجہ سے یہ پروگرام کھٹائی میں پڑ جاتا تھا کہ گرمیوں میں مَیں کہیں اور نکل جاتا تھا اور سردیوں میں ڈاکٹر عنایت سردی کی شدت کے باعث اُدھر جانے پر راضی نہیں ہوتے تھے۔ اس سال ہم دونوں نے مل بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ اس سال ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے شروع میں ازبکستان جائیں گے۔ سمر قند اور بخارا کے علاوہ میناروں کے شہر خیوا کی یاترا کی جائے گی مگر اب ویزے کا حصول ممکن نہیں۔ ازبکستان میں کاروبار کرنے والے ایک عزیز دوست یاسین گجر کی وساطت سے ازبکستان کے سفارت خانے سے پتا کرایا تو وہاں پر بھی سرخ جھنڈی دکھا دی گئی۔
سبز پاسپورٹ کی درجہ بندی ہر گزرتے سال نیچے سے نیچے آ رہی ہے۔ اس میں حکومت اور حکمرانوں کے بجائے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ چند سال قبل میں بچوں کے ہمراہ ترکی گیا تو وہاں پاکستانیوں کی بڑی عزت اور احترام تھا اور یہ مرتبہ بھی صرف اس لیے حاصل تھا کہ مسلمانانِ ہند نے سو سال قبل ترکی کی تحریکِ خلافت میں دامے درمے سخنے مدد کی تھی۔ میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ ہم اچھے وقت پر ترکی آ گئے ہیں کہ ابھی ہم پاکستانیوں کی عزت و توقیر باقی ہے۔ دو چار سال بعد ہونے والی ممکنہ بے عزتی سے پہلے پہلے عزت و آبرو سے ترکی دیکھ کر رخصت ہونا ایک نعمت ہے۔ ڈنکی لگانے والوں نے اب باکو (آذر بائیجان) کا رُخ کر رکھا ہے۔ فی الوقت وہاں بھی نکورنوکاراباخ میں مدد کے باعث تھوڑی عزت برقرار ہے‘ دیکھیں وہاں کا ویزہ ہم پاکستانی اپنے لیے کب بند کراتے ہیں؟ ہم جہاں بھی جاتے ہیں ایک داستان چھوڑ آتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں