ہم نے بچپن میں جو کہانیاں سنیں اور پڑھیں ان میں یہ ذکر ضرور ہوتا تھا کہ شہزادہ یا فقیر‘ یا جِن یا جادوگر پہلے ہنسا پھر رویا۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک عزیز دوست نے‘ جو مشہور و مقبول کالم نگار ہیں‘ پاکستان کو بھکاریوں کا گڑھ قرار دیا ہے۔ ایسے ایسے ہوشربا اور ناقابلِ یقین حقائق بیان کیے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہونے کے علاوہ رونا بھی آیا۔ ایک سچا واقعہ تو میرے علم میں بھی ہے۔ ایک لڑکی کی شادی ایک معزز کنبے میں ہوئی۔ کوٹھی بھی تھی اور گاڑیاں بھی۔ لڑکے والوں کا کوئی بزنس تھا۔ لڑکی سے جب پوچھا جاتا کہ تمہارے سسرال والے کیا کرتے ہیں تو وہ بتاتی کہ معلوم نہیں مگر سورج نکلنے سے پہلے اس کا شوہر اور اس کے ماں باپ‘ تینوں گھر سے چلے جاتے ہیں اور شام گئے پلٹتے ہیں۔ کئی ماہ گزر گئے۔ ایک دن لڑکی کی کسی رشتہ دار خاتون نے لڑکی کے شوہر کو کسی چوک پر بھیک مانگتے پہچان لیا‘ اگرچہ پہچاننا آسان نہ تھا اس لیے کہ پیشہ ور جاسوسوں کی طرح اس نے اپنے آپ کو ناقابلِ شناخت کر رکھا تھا۔ لڑکی نے بھکاری شوہر سے طلاق لے لی۔
یہ تو رونے کے معاملات تھے۔ روتے روتے ہنسی اس لیے آئی کہ میرے دوست نے وفاقی حکومت سے یہ کہا ہے کہ اور نہیں تو کم از کم وفاقی دارالحکومت ہی کو ''بھکاری فری‘‘ یا ''بھیک فری‘‘ کر دیا جائے۔ حکومت سے چھوٹے چھوٹے کام کرانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور بھکاریوں کا استیصال تو ایک منظم منصوبہ بندی کا متقاضی ہے جو حکومت‘ خاص کر بیوروکریسی کے بس کی بات نہیں! یہ سوشل ویلفیئر کا کام ہے۔ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے پاکستان میں سوشل ویلفیئر کی وفاقی سطح پر کوئی وزارت ہی نہیں!
پاکستان میں عوامی بہبود کا کوئی کام کرانا کس قدر جانکاہ ہے‘ اور حکومتی عمال کس قدر بے تعلق اور بے نیاز ہیں؟ یہ جاننے کے لیے صرف دو مثالیں کافی ہیں! وفاقی دارالحکومت کے وسط میں‘ گھروں کے عین درمیان‘ ایک مسجد کی بغل میں ایک چھکڑا رکھا گیا تھا جس میں کوڑا کرکٹ‘ غلاظت اور فضلہ ڈالا جاتا تھا۔ صفائی اس چھکڑے کی کئی کئی دن کے بعد ہوتی تھی۔ مسجد کی طرف جانے والے ناک پر رومال رکھ کر گزرتے تھے۔ لوگوں نے اپنی سی کوشش کی مگر کہاں کیڑے مکوڑے اور کہاں ہاتھی گھوڑے! اس سلگتے مسئلے پر کالم لکھے گئے۔ ٹیلی ویژن پر دہائی دی گئی۔ کالم ترقیاتی ادارے کے چیئرمین کو براہِ راست بھیجے گئے۔ ایک تنکا تک نہ ہلا۔
اُنہی دنوں سرفراز بگتی صاحب وزارتِ داخلہ چھوڑ چکے تھے۔ وزارت کے میڈیا ایڈوائزر کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ جہاد کرتے ہوئے چار ماہ کٹ گئے۔ اس سارے سیٹ اَپ میں صرف ایک بیوروکریٹ تھا جس نے مدد کی۔ یہ سابق سیکرٹری داخلہ اکبر درانی تھے۔ یہ کام ان کے ماتحتوں کے ماتحتوں کا تھا مگر انہوں نے ذاتی دلچسپی لے کر یہ چھکڑا وہاں سے ہٹوایا اور لوگوں کی دعائیں لیں!
دوسری مثال اس سے بھی زیادہ دلدوز اور دلخراش ہے۔ آئے دن اسلام آباد کے حساس ترین علاقے کی شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں۔ کرکٹ ٹیموں کو اس ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا ہے جس کے ایک طرف سفارتی آبادی ہے‘ دوسری طرف بہت بڑا بازار اور تیسری طرف مری کی شاہراہ ہے۔ خود پولیس کے اہلکار اس بند و بست کے خلاف ہیں کیونکہ عوامی غیظ و غضب کا سامنا انہیں کرنا پڑتا ہے۔ غیرملکی الگ خوار و زبوں ہوتے ہیں مگر حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔
یہ ہے حکومت کا رویہ! مکمل لا تعلقی! خوفناک سنگدلی! افسوسناک بے توجہی! اور ناقابلِ تصور بے اعتنائی! جہاں آسان مسائل‘ جو چٹکی بجانے سے حل ہو جاتے ہیں‘ حل نہیں کیے جا رہے تو بھکاریوں کو ختم کرنے کا مسئلہ تو انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس کے لیے دانش درکار ہے اور دور اندیشی! پہلے تو ان بااثر افراد پر ہاتھ ڈالنا ہو گا جو اس مافیا کی پشت پر ہیں۔ گاڑیاں بھکاریوں کو پِک اینڈ ڈراپ کرنے آتی ہیں۔ چوراہوں پر قبضے ہیں۔ اتنے بڑے بڑے کام بھکاری خود تو نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے ایک طاقتورمافیا اس گنجلک سلسلے کو چلا رہا ہے۔ اب دوسری طرف آئیے۔ فرض کیجئے اسلام آباد کے تمام بھکاری گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ کم از کم ان بھکاریوں کی تعداد دس ہزار ہے۔ (ویسے ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی!) پولیس انہیں حوالات میں بند کر دیتی ہے۔ یہاں اب کچھ سولات اٹھتے ہیں۔ کیا ان ہزاروں بھکاریوں کے لیے حوالات کے کمرے کافی ہوں گے؟ کیا اس کے بعد دیگر ملزمان کے لیے جگہ باقی بچے گی؟ دوسرا سوال یہ کہ کب تک انہیں بند رکھا جائے گا؟ دو ہفتے یا دو ماہ یا دو سال ؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ رہا ہونے کے بعد یہ کیا کریں گے؟ زیادہ امکان بلکہ یقین یہی ہے کہ دوبارہ گداگری اختیار کریں گے! چوتھا سوال یہ ہے کہ جب تک گرفتار رہیں گے ان کے تین وقت کے کھانے کا بار حکومت یعنی ٹیکس دہندگان نہیں اٹھائیں گے تو کون اٹھائے گا؟
یہاں آتا ہے سوشل ویلفیئر کا کردار! ہماری وفاقی حکومت میں تو خیر سے سوشل ویلفیئر کی وزارت ہی نہیں ہے۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ان لوگوں کیلئے فیکٹریاں لگائی جائیں اور لیبر کیمپ بنائے جائیں جہاں یہ مزدوری کریں اور اپنے اخراجات کا بوجھ خود اٹھائیں۔ زیادہ سے زیادہ حکومت یہ مہربانی کر سکتی ہے کہ چھ مہینے یا ایک سال تک انہی فیکٹریوں یا لیبر کیمپوں میں قیام کی سہولت دی جائے۔ اگر جیلوں میں بند قیدی فرنیچر بنا سکتے ہیں‘ قالینیں بُن سکتے ہیں اور دیگر کام کر سکتے ہیں تو بھکاریوں سے یہ کام کیوں نہیں لیا جا سکتا؟ امیر تیمور کے زمانے میں مانگنے والوں کو پکڑ کر ان کی مالی مدد اس انداز سے کی جاتی تھی کہ وہ اپنے پَیروں پر کھڑے ہو جائیں اور کما کر کھائیں۔ اگر یہ دوبارہ مانگتے دکھائی دیتے تو دور افتادہ مقامات پر بھیج دیے جاتے یا انہیں غلام بنا لیا جاتا! لاہور ہائی کورٹ نے2011ء میں حکم دیا تھا کہ پیشہ ور گدا گری کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اپاہج افراد کے لیے امدادی ٹھکانے بنائے جائیں۔ کچھ بزرجمہر یہ بھی تجویز کرتے پائے گئے کہ گداگروں کیلئے ہر شہر میں کچھ ایریا مخصوص کر دیا جائے جہاں سے باہر انہیں بھیک نہ مانگنے دی جائے۔ مگر یہ تجویز ناقابلِ عمل اور احمقانہ ہے۔ اصل حل اس مسئلے کا طویل المیعاد منصوبہ بندی ہے۔ جسمانی طور پر صحت مند بھکاریوں کے لیے فیکٹریاں اور لیبر کیمپ قائم کیے جائیں۔ پلوں‘ شاہراہوں اور دیگر سرکاری تعمیراتی کاموں پر ان سے مزدوری کا کام لیا جائے۔ جو اپاہج ہیں‘ ان کے لیے سول سوسائٹی‘ خاص طور پر مخیر حضرات کی مدد سے دار الامان اور اولڈ ہومز جیسے ادارے قائم کیے جائیں۔ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے انہیں بورڈنگ ہاؤس والے سکولوں میں داخل کیا جائے۔ ان کے اخراجات حکومت کے ذمے ہوں!
افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ خیراتی‘ فلاحی اور امدادی کاموں میں پاکستان کا نجی شعبہ نمایاں اور ممتاز خدمات انجام دے رہا ہے۔ مگر آج تک کسی نجی ادارے‘ سول سوسائٹی کے کسی حصے اور کسی مقامی این جی او نے گداگری ختم کرنے پر توجہ نہیں دی۔ ایک نسخہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو قائل کیا جائے کہ کسی گدا گر کو بھیک نہ دیں‘ امدادی رقوم صرف سفید پوش غربا کو دیں یا غریب بچوں کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ اٹھائیں۔ اگر چوراہوں پر براجمان اور گاڑیوں کے شیشوں پر دھپ دھپ کرنے والے ''مافیا بھکاریوں‘‘ کو کوئی کچھ نہیں دے گا تو اس سے بھی اس مکروہ پیشے کی حوصلہ شکنی ہو گی!! اب اسلام آباد کی شاہراہوں پر مانگنے والوں کی ایک نئی قسم بھی نظر آتی ہے۔ یہ نوجوان ہیں اور چمکیلی‘ سلور رنگ کی خوبصورت ودردیاں پہن کر‘ بے حس و حرکت‘ مجسموں کی طرح کھڑے رہتے ہیں۔
عقل عیار ہے‘ سو بھیس بدل لیتی ہے!