ایک بستی تھی جس میں امیر غریب‘ ہر طرح کے لوگ رہاکرتے تھے۔ انہی میں ایک ایسا غریب آدمی بھی تھا جسے اپنی ضروریاتِ زندگی بھی قرض لے کر پوری کرنا پڑتی تھیں۔ کنبہ بڑا تھا اور خرچ بے تحاشا۔ اس پر بچوں کے اللے تللے بھی۔ سال پورا نہیں ہوتا تھا کہ قرض کی رقم ختم ہو جایا کرتی تھی۔ یہ فکر کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی تھی کہ اگلے سال خرچ کہاں سے پورا ہو گا۔ قرض ملے گا کہ نہیں‘ اور اگر ملے گا تو مہاجن کن شرطوں پر نیا قرض دے گا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اس غریب کو پتا چلا کہ اس کے مکان کے کچے آنگن میں ایک بہت بڑا خزانہ دفن ہے۔ خزانہ بھی اتنا بڑا کہ اس کی نسلوں کی قسمت بدل سکتا ہے۔ تنگی ترشی کے اس دور میں یہ بہت بڑی خبر تھی۔ پورا گھرانہ جھوم اُٹھا۔ مستقبل کے سنہرے خواب دیکھے اور دکھائے جانے لگے۔ یہ خزانہ ہاتھ لگ جائے تو نہ صرف پچھلا قرض چکتا کر دیا جائے گا بلکہ مکان بھی از سرِ نو ڈھنگ کا بنا لیا جائے گا۔ گاڑی خرید لی جائے گی اور بستی کے معززین کی طرح شان سے زندگی گزاری جائے گی۔
یہ سنہرے خواب تو ٹھیک‘ لیکن بڑا سوال یہ تھا کہ خزانہ ہاتھ لگے گا کیسے؟ زمین نہ کبھی کھودی‘ نہ پتا ہے کیسے کھودی جاتی ہے‘ نہ کدال اور پھاؤڑے ہیں‘ نہ دوسرا سامان۔ زمین تلے خزانہ نکالے جانے کا انتظار تو کر رہا ہے لیکن نکالنے والا ہوگا کون؟ بستی ہی میں ایک تجربہ کار کھدائی کا کام کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ اچھا! میں یہ کام کر دوں گا۔ کدال پھاؤڑے بھی میرے‘ محنت بھی میری۔ لیکن آدھا خزانہ میرا ہو گا۔ غریب آدمی کو تکلیف تو بہت ہوئی کہ میری زمین کا آدھا خزانہ غیر کے پاس جارہا ہے‘ اور یہ آدھا خزانہ بھی بہت بڑی رقم تھی لیکن باقی خزانے کے ملنے کا خواب بھی بہت بڑا تھا۔ سو اس نے معاہدہ کر لیا اور کھدائی شروع ہو گئی۔ اب وہ غریب اور اس کا گھرانہ کھدائی ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب مٹی میں سے سنہری اشرفیاں چھن چھن کرتی نکلیں گی۔
استنبول‘ ترکیہ کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر توپ کپے کے جواہرات والے کمرے میں ایک ہیرا شیشے کے پیچھے جگمگاتا ہے جسے کاسیک الماسی‘ یعنی چمچے والا ہیرا کہتے ہیں۔ یہ 86 قیراط کا‘ دنیا کا چوتھا بڑا خالص ترین ہیرا ہے۔ مشہور روایت ہے کہ ایک قلاش مچھیرے کو‘ جس کے جال میں اس دن کوئی مچھلی نہیں آئی تھی‘ ساحل کے پتھروں کے بیچ یہ چمکتا ہیرا ملا تھا۔ وہ اس توقع میں کہ یہ کوئی قیمتی پتھر ہے‘ اسے ایک جوہری کے پاس لے گیا۔ جوہری نے پتھر کا معائنہ کیا اور انکار میں سر ہلا دیا۔ بولا: یہ کسی کام کا نہیں لیکن اگر چاہو تو میں اس کے بدلے لکڑی کے تین چمچ دے سکتا ہوں۔ مایوسی میں مچھیرے نے وہ تین چمچ لیے اور گھر روانہ ہو گیا۔ بیش قیمت ہیرا جوہری کی تجوری میں منتقل ہو گیا۔
ریکوڈک‘ بلوچستان کے سونے اور تانبے کے عظیم ذخائر‘ جو دنیا کے چوتھے بڑے ذخائر بتائے جاتے ہیں‘ ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ حکومتِ پاکستان ایک ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری ریکوڈک میں کروانے کی خواہشمند ہے‘ اور سعودی بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ تفصیلات سامنے نہیں آئیں لیکن بظاہر وفاقی حکومت اس منصوبے میں اپنے حصص فروخت کرکے یہ سرمایہ حاصل کرے گی۔ میں جب بھی ریکوڈک خزانے میں ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی )‘ بیرک گولڈ کمپنی‘ انتو فاگستا کمپنی اور سعودی عرب کی شراکت داری کا سنتا ہوں تو مجھے اپنا آپ یا اس بستی کے غریب آدمی جیسا لگنے لگتا ہے یا اس خوش قسمت بدنصیب مچھیرے جیسا۔ ایسی خوش قسمتی اور ایسی بدنصیبی؟
ماضی میں کافی رِستے‘ تکلیف دہ زخموں کے ہوتے ہوئے‘ یہ حسنِ ظن رکھنے کے باوجود کہ اربابِ اقتدار اور ایس آئی ایف سی کے فیصلے ساز جو کچھ کر رہے ہیں وہ ملک و قوم کے مجموعی مفاد ہی میں ہو گا‘ یہ سوچ کر بھی تکلیف ہوتی ہے کہ اس خزانے کا بہت بڑا حصہ غیرملکی سرمایہ کار لے جائیں گے۔ وہ حصہ جو ہماری زمین نے ہمارے لیے امانتاً چھپا رکھا تھا‘ ظاہر ہونے کو ہے تو اس میں حصے بٹورنے بہت سے لوگ آگئے ہیں۔ یہ خبر پڑھنا کہ مصری ارب پتی ''نجیب سوارس‘‘ بھی اس خزانے میں سرمایہ کاری کے ذریعے حصہ حاصل کرنے کیلئے نظریں لگائے بیٹھا ہے‘ تکلیف دہ تھا۔ زمینی حقائق بہرحال یہ ہیں کہ ہمارے پاس نہ اتنا سرمایہ ہے نہ اتنا تجربہ کہ لگ بھگ دس ارب ڈالر سرمایہ لگا کرکے منصوبے کو خود پورا کر سکیں۔ ایک ٹریلین ڈالر کا یہ خزانہ بیش بہا سہی لیکن اسے نکالنے کے اخراجات بھی تو زمینی حقیقت ہیں۔
لگ بھگ دس ہزار ارب یا دس کھرب ڈالر کا یہ خزانہ ہمارے گھر کے آنگن میں کہاں دفن ہے اور یہ خزانہ ہے کیا؟ یہ کس طرح باہر آئے گا۔ اس بارے میں بھی ہم میں سے بہت لوگ نہیں جانتے۔ بلوچستان کا ضلع چاغی پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کیلئے مشہور ہے۔ اسی ضلع چاغی کے شمال مغرب میں نوکنڈی سے ستر کلومیٹر دور یہ قصبہ ریکوڈک واقع ہے۔ یہاں پاکستان‘ افغانستان اور ایران کی سرحدی تکون بھی بنتی ہے۔ 'ریکودک‘ کا بلوچی میں مطلب ہے: ریتیلی چوٹی یا پہاڑی۔ اس نام سے ایک سرد آتش فشاں بھی موجود ہے۔ انگلش میں آکر یہ نام ریکوڈک بن گیا۔ یہ ایک صحرا یا ویرانہ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ صحرا اور ویرانے خزانے دفن کرنے کیلئے مشہور بھی ہیں۔ نہایت کم آبادی والا یہ دشت گرمیوں میں شدید گرم اور سردیوں میں بہت ٹھنڈا ہے۔ یہاں بگولے چکرائے پھرتے ہیں اور ریتیلی آندھیاں چلتی ہیں۔ زاہدان‘ کوئٹہ ہائی وے ہی یہاں پہنچنے کا زمینی راستہ ہے۔ 1978ء کے ایک جیالوجیکل سروے میں اس بے آب و گیاہ خرابے کے بارے میں حیران کن انکشاف ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ علاقہ معدنیات‘ بالخصوص تانبے اور سونے سے بھرا پڑا ہے۔ ایک مدفون خزانہ جس کی مالیت کا اندازہ لگ بھگ دس کھرب ڈالر لگایا گیا‘ مالی مشکلات میں گھرے پاکستان کیلئے بہت بڑی خبر تھی۔ 46 سال پہلے اگر اسے نکالنے کا پروگرام اور طریقہ کار بنا لیا جاتا تو کسی غیر کے در پر جانے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ خدا خدا کرکے 1993ء میں اس کوشش کا آغاز کیا گیا لیکن اس کے بعد نااہلی‘ ذاتی مفاد‘ لالچ اور بے حسی کی لمبی داستان شروع ہوتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مختلف عالمی کمپنیوں سے اس ذخیرے کو نکالنے کے معاہدے کیے۔ ابھی کام شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ کچھ کمپنیاں راستے ہی میں ساتھ چھوڑ گئیں۔ کچھ نے اپنے حصص دیگر عالمی کمپنیوں کو فروخت کردیے۔ حکومت نے جو معاہدے کیے انہیں جاننے والے کہتے ہیں کہ فیصلہ سازوں کی بدنیتی اور ذاتی لالچ ان معاہدوں میں شامل تھا۔ نتیجہ یہ کہ سارا کام درمیان میں ہی لٹک گیا۔ افتخار چودھری کی سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کے ذریعے اس معاملے کو اٹھایا اور اس طرح کا فیصلہ سنایا کہ نہ صرف سارا کام کھٹائی میں پڑ گیا بلکہ ٹیتھیان کاپر کمپنی نے ورلڈ بینک آربیٹریشن ٹربیونل میں معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان پر مقدمہ کردیا۔ ٹربیونل نے 2019ء میں لگ بھگ چھ ارب ڈالر کا جرمانہ پاکستان پر کیا۔ یہ بہت بڑی رقم تھی۔ لگ بھگ اتنی ہی جتنی آئی ایم ایف سے حاصل کرنے کیلئے ہم اس کی کڑی شرائط ماننے پر مجبور ہیں۔ عمران خان دورِ حکومت میں بیرک گولڈ کمپنی کو درمیان میں ڈال کر نیا معاہدہ کیا گیا جس سے اس جرمانے کی تلوار پاکستان کے سر سے ہٹ گئی۔ اس لمبی کہانی کو یہاں بیان کرنے کا فائدہ نہیں لیکن کم از کم یہ کہ اس معاملے پر انکوائری کمیشن بنتا اور ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے والوں‘ اور غلط فیصلے کرنے والوں کو سزا ملتی‘ خواہ کتنا ہی با اثر فرد ہوتا۔ اس کمیشن کا ابھی تک انتظار ہے‘ اور شاید یہ کبھی نہ بن سکے۔ (جاری)