ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

اومی کرون اور یورپ کو وارننگ

تحریر: مارک سینٹورا

عالمی ادارۂ صحت نے پورے خطے میں‘ مغرب سے مشرق تک چلنے والی کورونا کی لہر کا حوالہ دیتے ہوئے اسی ہفتے وارننگ جاری کی ہے کہ ’’یورپ کی آدھی سے زیادہ آبادی اگلے 6 سے 8 ہفتوں کے دوران کورونا وائرس کے نئے ویری اینٹ اومیکرون کے انفیکشن کا شکار ہو سکتی ہے‘‘۔ ایجنسی کے ریجنل ڈائریکٹر فار یورپ ڈاکٹر ہانز کلوگ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ’’یورپ میں 2022ء کے پہلے ہفتے میں ہی کووڈ 19 سے 7 ملین سے زائد افراد انفیکشن کا شکار ہو گئے ہیں۔ صرف دو ہفتوں میں یہ تعداد دوگنا ہو گئی ہے‘‘۔

 اگرچہ کورونا وائرس کی ویکسین شدید بیماری اور اموات کوروکنے کے لیے انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہے؛ تاہم ایجنسی نے وارننگ دی ہے کہ اس وائرس کا موسمی فلو کی طرح علاج نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ابھی اس کے بارے بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ خاص طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مشرقی یورپ جیسے علاقوں میں جہاں ویکسین لگانے کی شرح کم ہے‘ بیماری کی شدت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے وارننگ دی ہے کہ بوسٹر ڈوز لگانے سے دنیا میں ویکسین لگانے میں عدم مساوات مزید بڑھے گی؛ تاہم ڈاکٹر کلوگ نے منگل کو رپورٹرز کو بتایا کہ جن لوگوں کا اومیکرون سے متاثر ہونے کا خدشہ زیادہ ہے‘ وہ انہیں شدید بیماری میں مبتلا ہونے سے بچانے میں اہم کردار ادا کریں گے اور ان کے ساتھ ساتھ ہیلتھ ورکرز اور دیگر ملازمین کو بھی اس وائرس سے تحفظ فراہم کریں گے۔ چونکہ کورونا کا نیا ویری اینٹ اومیکرون گزشتہ سال نومبر کے آخری دنوں میں دریافت ہوا تھا‘ اس کے ساتھ ہی اس نے تیزرفتاری سے پھیلنا شروع کر دیا تھا مگر ڈاکٹر کلوگ نے جس اضافے کی طرف اشار ہ کیا ہے اس کی بنیاد انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیو ایشن کی پیش گوئیوں پر مبنی ہے؛ تاہم انسٹیٹیوٹ جن ماڈلز کو اپنا معیار مقرر کرتا ہے‘ ماہرین نے ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ امر تو بالکل واضح ہے کہ کورونا کا یہ ویری اینٹ اتنی تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے کہ بے شک لوگوں کی بڑی تعداد بیماری کی شدت سے متاثر نہ ہو‘ پھر بھی اومیکرون ویری اینٹ پورے براعظم یورپ میں شدید ہلچل مچا ئے گا۔

اگرچہ عوامی سطح پر ہونے والی بحث اس موضوع کے گرد گھوم رہی ہے کہ کیا حکومتوں کو کورونا وائرس کا ایک وبائی مرض کے طور پر علاج کرنے کے لیے اپنی پالیسز اور پابندیوں میںانقلابی تبدیلی لانی چاہئے اور کیا انہیں مسلسل عائدکی گئی پابندیاں ختم کر دینی چاہئیں اور لوگوںکو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ اومیکرون کا علاج بھی انفلوئنزا کی طرح کرنے کا رسک لے لیں؟ ڈبلیو ایچ او کا موقف ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اومیکرون ایک وبائی مرض جیسا وائرس ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائز یشن کی سینئر ایمرجنسی افیسر کیتھرین سمال ووڈ کا کہنا تھا کہ اس وائرس کو وبائی مرض قرار دینے میں ایک بنیادی فیکٹر اس کے بارے میں پیشگوئی کا احساس تھا۔ ’’ہم ابھی بہت دور ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ابھی کافی بے یقینی پائی جاتی ہے‘‘۔

ڈاکٹر کلوگ نے بھی اس حوالے سے کہا ہے کہ سیدھی سی بات ہے کہ ابھی تک اس کے بارے میں بہت سے نامعلوم عوامل پائے جاتے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ اومیکرون کا وائرس ان لوگوں کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے جنہوں نے ابھی تک کووڈ کی ویکسین نہیں لگوائی اور ان میں اس انفیکشن کا کتنا رسک موجود ہے جس سے ایک ’’طویل کووڈ‘‘ کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ ’’مجھے تو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ جیسے جیسے یہ وائرس مشرقی ممالک کی طرف پھیلا تو ہمیں ان ممالک میں اس کا پورا ثرا بھی دیکھنا ہے جہاں ویکسین کی بوسٹر ڈوز کا لیول بہت نیچے ہے اور جہاں ہم ان افراد میں وائرس کی بیماری کی شدت زیادہ دیکھیںگے جہاں آبادی کے بڑے حصے کو کووڈ کی ویکسین نہیں لگائی جا سکی‘‘۔

بلقان ریجن اور مشرقی یورپ کے ممالک جہاں ابھی اومیکرون بڑے پیمانے پر پھیلنا شروع ہوا ہے‘ وہاں مغربی یورپ میں واقع ممالک کے مقابلے میں ویکسین لگانے کی شرح بہت کم ہے۔ ڈاکٹر کلوگ نے ڈنمارک کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں ویکسین کے بہت مؤثر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ کورونا کی آخری لہر میںکرسمس والے ہفتے کے دوران ویکسین لگوانے والے شہریوں کے مقابلے میں ان لوگوں کی ہسپتال میں داخلے کی شرح 6 گنا زیادہ تھی جنہوں نے کورونا کی ویکسین ابھی تک نہیں لگوائی تھی۔ ڈاکٹر کلوگ کا مزید کہنا تھا ’’مجھے اس بات کا اعادہ کرنے دیں کہ اس وقت جو ویکسین لگائی جا رہی ہے وہ اومیکرون سمیت کووڈ کی شدید بیماری اور شرح اموات میں کمی کے لیے بہت مؤثر ثابت ہو رہی ہے۔ مگر چونکہ اس کی پھیلنے کی رفتار غیر معمولی ہے اب ہمیں نظر آ رہا ہے کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ ان ممالک کے ہیلتھ سسٹم اور سروس ڈلیوری کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوتا رہا ہے جہاں اومیکرون تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔ وہ ممالک جو ابھی تک اومیکرون ویری اینٹ سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے ان کے پاس وقت کم ہے اور انہیں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کر لینی چاہئے‘‘۔ یورپ میں شامل تمام ممالک ایک متحدہ کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے بھی ممکن ہو سکول کھلے رکھے جائیں اور ڈاکٹر کلوگ ایسی کوششوںکو لازمی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ہے ’’ہمیں چاہئے کہ اپنے سکول سب سے آخر میں بند کریں اور بہتری آنے پر سب سے پہلے سکول ہی کھولے جائیں؛ تاہم کئی مقاما ت پر انفیکشن سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ان ممالک کے سکولوں کے لیے بیماری کی شدت اور سٹاف کی قلت کی وجہ سے اپنی تمام کلاسز کو کھولنا مشکل ہو رہا ہے‘‘۔

اس ہفتے یہ دبائو فرانس میں بالکل عیاں تھا جہاں حکومتی ذرائع کے مطابق سوموار کے روز 10452 کلاسز منسوخ کر دی گئی تھیں۔ وزیراعظم جان کیسٹکس نے کہا ہے کہ اگر کلاس کے کسی بچے کا کورونا ٹیسٹ پازٹیو نکل آیا تو تما م بچوں سے کہا جائے گا کہ وہ پی سی آر ٹیسٹ کے بجائے صرف سیلف ٹیسٹ ہی کروا لیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح سکول کا نظام کام کرتا رہے۔ فرنچ وزیراعظم نے فرانس 2 ٹی وی کو بتایا ’’اگر ہم یہ چاہتے کہ پہلا کیس منظر عام پر آتے ہی سکول بند کر دیتے تو اومیکرون کو ذہن میں رکھتے ہوئے یاد رکھیں کہ اب تک فرانس کے تمام سکول بند ہو چکے ہوتے‘‘۔ کئی ممالک ان لوگوں کے لیے قرنطینہ کا پیریڈ کم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جن کا ٹیسٹ پازٹیو آیا ہے تاکہ لازمی سروسز پر اس کا زیادہ اثر نہ پڑے۔ مگر ڈاکٹر کلوگ کا خیال ہے کہ ’’قرنطینہ کا مجوزہ وقت کم کرنے کا فیصلہ کرتے وقت اور لازمی سروسز کو جاری رکھنے کے لیے کووڈ کے نیگٹو ٹیسٹ کو بھی پیش نظر رکھا جائے‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement