افغانستان میں امریکہ کی ضرورت …(2)
تحریر: کیتھی گینن
جب سوویت فوج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہوا تو امریکہ نے اس کے بعد کے برسوں میں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی اور ایک عشرے بعد تو کابل میں اپنا سفارت خانہ بھی بند کردیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کو کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ وہاں کیا کھچڑی پک رہی تھی اور یوں افغانستان کے حالات اس ڈگر پر چل نکلے جس کا نتیجہ امریکہ پر نائن الیون حملوں کی صورت میں برآمد ہوا۔گزشتہ دو برسوں سے بھی امریکہ افغانستان کے حوالے سے اسی طرح کی پالیسی پر کاربند نظر آتا ہے ۔اس نے کابل میں اپنی سفارتی واپسی کا باب بند کررکھا ہے ۔ اس کا خیال یہ ہے کہ وہ اس وعدے کی صورت میں دبائو ڈال سکتا ہے کہ طالبان حکومت کو امریکہ اور عالمی برادر ی صرف اسی صورت میں تسلیم کرے گی جب وہاں لڑکیوں کیلئے تعلیم کے دروازے کھولے جائیں گے اور خواتین پر عملی زندگی میں حصہ لینے کے ضمن میںلگائی گئی پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔اور ایک مرتب پھر دبائو کی یہ امریکی پالیسی بری طرح ناکامی سے دوچار نظر آرہی ہے۔2021ء سے‘ جب سے میں طالبان تحریک کے حوالے سے رپورٹنگ کررہی ہوں‘میں نے دیکھا ہے کہ جن طالبان رہنمائوں پر زیادہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ اتنے ہی زیادہ کھل کر سامنے آگئے ۔وہ ان پابندیوں کی آڑ میں یہ کہہ کرحکومتی امور پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اس کاسیاسی فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے ہیں کہ ان کے ملک کودانستہ عالمی تنہائی کاشکار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو افغان رہنما عالمی برداری کے ساتھ مل کر چلنے کی خواہش رکھتے ہیںاور جو سماج کی ترقی میں خواتین کے ایک مثبت کردار کے حامی ہیں‘ انہیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑرہی ہے۔
امریکہ نے مالی لحاظ سے افغانستان کیلئے ایک فراخدلانہ تعاون کا مظاہرہ کیا ہے اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی انسانی بنیادوں پر ایک کثیر امداد فراہم کرنے کا بندوبست کیاہے ۔امریکہ آج بھی افغانستان کیلئے مالی وسائل کی فراہمی کا سب سے بڑ ا ڈونر ہے ۔جب سے اس نے افغانستان کو چھوڑا ہے اب تک اس پر دو ارب ڈالرز سے زائد کی امداد ی رقوم خرچ کرچکا ہے ۔(عین اسی وقت امریکہ اور یورپی یونین نے طالبان کی واپسی کے بعد سے افغانستان کے نو ارب ڈالرز کے اثاثے منجمد بھی کررکھے ہیں) لیکن صرف انسانی بنیادوں پر ملنے والی امدادی رقوم سے ہی افغانستان میں ترقی کے عمل کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا ۔افغانستان میں عوامی سطح پر طالبان مخالف تحریک کے بارے میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ وہی بدنامِ زمانہ وارلارڈ زہیں جن پر جنگی جرائم کے الزامات ہیں اور یہ وہی سابق جرنیل ہیں جنہوں نے 2001ء میں افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد چارج سنبھال لیا تھا ۔ان میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جن پر افغان سویلینز کے خلا ف گھنائونے جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں گو کہ انہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے ۔امریکہ نے ان رہنمائوںکے ساتھ مل کر کام بھی کیا ہے لیکن یہ لوگ افغان مسئلے کا حصہ ہیں‘ اس کا حل نہیں ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ امریکی حکام نے قطر میں طالبان رہنمائوں سے ملاقات بھی کی ہے جہاں اس گروپ نے اپنا ایک سیاسی دفتر قائم کررکھا ہے اور جہاں امریکہ کا سفارتی مشن برائے افغانستان بھی قائم ہے ۔واشنگٹن کے خصوصی سفارت کا ر تھامس ویسٹ امریکہ کی افغان پالیسی کا عوامی چہرہ ہیں۔انہوں نے قطر میں طالبان رہنمائوںکے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم اور انسانی بنیادوں پر امدا د کی فراہمی جیسے موضوعات پر مذاکرات بھی کیے ہیں اور وہ اس ضمن میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک‘مشرقِ وسطیٰ او ریورپی ممالک کے ساتھ بھی بات چیت کرتے رہتے ہیں۔مگر یادرہے کہ یہ فاصلاتی نوعیت کا تعاون ہے ۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس میں مخصوص افغانوں کو شریکِ عمل کیا جاتا ہے جن میں کابل کی اشرافیہ‘بیرونِ ملک مقیم افغان تارکینِ وطن اور سابق افغان سرکاری حکام شامل ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکام کو اس بات کا کوئی ادراک یا سمجھ نہیں ہے کہ افغانستان کے زمینی حقائق کس نوعیت کے ہیں۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے اقوامِ متحدہ نے افغانستا ن میں اپنا وجود مسلسل برقرار رکھا ہے اور اس عمل میں جاپان‘چین‘روس اور مشرقِ وسطیٰ کے بیس سے زائد ممالک بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ دو برسوں سے وہاں اپنی سفارتی موجودگی کو برقراررکھاہوا ہے ۔جب تک امریکہ او ردیگر یورپی ممالک بھی ایسا ہی نہیں کرتے‘ اس وقت تک افغانستان میں ایسے لوگ موجود رہیں گے جو خود کو تنہا محسوس کرتے رہیں گے اور وہ وہاں ایسی کوئی تبدیلیاں نہیں لاسکیں گے جو صرف وہی لا سکتے ہیں۔
یہ بھی ایک مثبت اقدام ہوگا اگر مغربی حکام اپنے سرکاری بیانات میں محض جذبات کو بھڑکانے کے بجائے آگے کی سمت میں کوئی پیش رفت او رکارکردگی دکھانے کا راستہ نکالیں۔امریکی فنڈز افغانستان میں کس طرح استعمال کیے جارہے ہیں‘ ان کے بارے میں اپریل میں امریکی کانگرس کے ساتھ ایک خطاب میںامریکی انسپکٹر جنرل برائے افغانستان تعمیرنو جان سپوکو نے بتایا تھا کہ ’’ میں آپ کو صرف اتنا ہی بتانا چاہوںگا کہ میں نے وہاں ٹی وی سکرین پر کسی طالبان جنگجو کو بھوک او رقحط سے موت کے منہ میں جاتے ہوئے نہیں دیکھا ہے ۔وہ سب موٹے تازے او رخوش دکھائی دیتے ہیں۔میں نے بہت سے بھوکے افغان بچوں کو ٹی وی پر دیکھا ہے ۔اس لیے میں حیران ا ور پریشان ہوں کہ یہ ساری فنڈنگ کہاں جا رہی ہے‘‘ ۔جب مسٹر سپوکو کی یہ تشویش اپنی جگہ جائز اور بجا ہے کہ امریکی فنڈنگ اس وقت کہاںخرچ ہورہی ہے تو اس قسم کا تاثر کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے ۔طالبان تحریک ایک ایسی تحریک ہے جو اپنے مذہبی جوش وجذبے سے پہچانی جاتی ہے جس کی جڑیں افغانستان کے دیہاتی اور قبائلی معاشرے میں بہت گہری پیوست ہیں۔ پورے افغانستان میں انہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسی طرح غیر پیداواری سمتوں میںاحترام کی کمی بھی اتنی ہی زیادہ محسوس کی جاتی ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت افغانستان میں برسراقتدار طالبان بھی افغان سماج کا جزو لاینفک ہیں ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں ہے کہ تمام افغان شہری لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں او ر خواتین کیلئے عملی زندگی میں شراکت پر بندشوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔لیکن اس کا یہ مفہوم بھی ہرگز نہیں ہے کہ اس مسئلے کے حل کی خاطر آگے بڑھنے کیلئے کسی بہت گہرے ادراک کی ضرورت ہے‘اس کیلئے تکبر سے پاک اور ایک دیسی افغان حل ہی مفید ثابت ہوگا۔ آپ میری یہ بات پسند کریں یا نہ کریں اس کا حل یہی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جلد ازجلد افغانستان کے امن وترقی کے عمل میں واپس شامل ہو جائیں۔
بشکریہ : نیویارک ٹائمز‘ انتخاب : دنیا ریسرچ سیل‘ مترجم : زاہد رامے
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)