اسرائیلی فوج ہر محاذ پر ناکام کیوں؟ …(1)
تحریر: ایڈم گولڈمین
جس وقت تل ابیب میں اسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹر کے ایک بنکر‘ جسے ’’دی پِٹ‘‘ کہا جاتا ہے‘ میں کمانڈرز سات اکتوبر کو حماس کے راکٹ فائرز کے بارے میں رپورٹس کا تجزیہ کرنے میں مصروف تھے‘ اس وقت انہیں ایک کال موصول ہوئی۔ یہ غزہ کی سرحد کے ساتھ ساتھ ملٹری آپریشنزکی نگرانی کرنے والے ڈویژن کے کمانڈر کی طرف سے تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے فوجی اڈے پر حملہ ہو گیا تھا۔ ایک فوجی عہدیدار‘ جسے اس فون کال کے بارے میں علم ہے‘ کے مطابق کمانڈر اپنی فون کال کے ذریعے نہ تو حملے کی شدت کے بارے میں کچھ بتا سکا اور نہ کوئی مزید تفصیلات بیان کر سکا؛ تاہم اس نے اتنا ضرور کہا کہ فوری طور پر تمام دستیاب کمک اسے بھیج دی جائے۔
صبح کے وقت جب یہ راکٹ حملہ شروع ہوا تھا اس کے ایک گھنٹے بعد حماس کے ہزاروں جنگجوئوں نے مل کر اسرائیل پر ہلہ بول دیا۔ دی پِٹ نے اس روز فوج کی پہلی تعیناتی کے بارے میں حکم جاری کیا۔ اس حکم میں کہا گیا تھا کہ تمام ایمرجنسی فورسز‘ جس قدر جلد ممکن ہو‘ اپنے تمام دستیاب یونٹس کے ساتھ فوری طور پر جنوب کی طرف پیش قدمی شروع کر دیں؛ تاہم اسرائیل کے فوجی رہنما یہ نہ سمجھ سکے کہ اسرائیل پر حملہ تو بہت پہلے ہو چکا تھا۔ کئی گھنٹے بعد بھی اسرائیلی شہری اپنی جانیں بچاتے پھر رہے تھے اور مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ جب مشرقِ وسطیٰ کی جدید ترین فوج اپنے شہریوں کی جانیں بچانے جیسے اہم مشن میں بری طرح ناکام ہو گئی تو اس کے بعد پتا چلا کہ حماس کے اس حملے میں بارہ سو سے زائد اسرائیلی شہری مار ے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے سست ردعمل کی کیا وجوہات تھیں اس کا پتا چلانے میں شاید کئی مہینے لگ جائیں؛ تاہم حکومت نے بہت جلد اس کی ایک انکوئرای کرانے کا وعدہ کیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کی ایک تحقیقی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی فوج کے پا س فوجی جوانوں کی قلت تھی۔ وہ اپنی اپنی پوزیشن پر نہیں تھے اور اس قدر غیر منظم تھے کہ فوجیوں کو فوری طور پر وٹس ایپ گروپس پر ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنا پڑا اور انفارمیشن ٹارگٹ کرنے کے لیے انہیں سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑا۔ فوجی کمانڈوز صرف ہلکا اسلحہ لے کر ہی مختصر سی جنگ لڑنے کے لیے چل پڑے۔ ہیلی کاپٹر پائلٹس کو نیوز رپورٹس دیکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور ٹیلی گرام چینلز کو ٹارگٹ چننے کے لیے کہا گیا تھا۔ سابق اور حاضر سروس فوجیوں اور افسروں کے مطابق: شاید سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہوئی کہ اسرائیل ڈیفنس فورسز کے پاس اسرائیلی سرزمین پر حماس کے اتنے بڑے حملے کا جواب دینے کے لیے کوئی پلان سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ فوجیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ایسا کوئی پلان کسی شیلف پر پڑا بھی تھا تو کسی کو اس کی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی اور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا تھا۔ اس روز فوجیوں کو دل و دماغ میں جو کچھ آیا‘ سب نے اسی کے مطابق کارروائی کی۔
جنوب کی فوجی کمان کے سابق سربراہ اور اسرائیلی ریزروز کے میجر جنرل یوم ٹووسمیہ کا کہنا ہے کہ ’’عملی طور پر ملکی دفاع کے لیے کوئی مناسب تیاری تھی نہ ا س کی پریکٹس۔ ہمارے پاس فوجی آلات تھے اور نہ ایسا آپریشن کرنے کی قوت موجود تھی۔ ‘‘ریزروز کے بریگیڈیئر جنرل اور غزہ ڈویژن کے سابق ڈپٹی کمانڈر امر اویوی‘ جن کے ذمہ اس ریجن کا دفاع کرنا تھا‘ کا کہنا ہے کہ ’’جس طرح کا اچانک حملہ حماس نے سات اکتوبر کو کیا تھا ہماری افواج کے پاس ایسے اچانک حملے کے بارے میں کوئی دفاعی پلان موجود ہی نہیں تھا‘‘۔ جب دی ٹائمز کی طرف سے سوالات کا سلسلہ تواتر سے جاری رہا جن میں یہ استفسار بھی کیا گیا تھا کہ آخر تمام فوجی جوان اور افسر‘ سب ایک ہی با ت کیوں کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس کوئی پلان نہیں تھا؟ اس پر اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے یہ جواب دیا ’’اسرائیل ڈیفنس فورسز کی اس وقت ساری توجہ حماس کی طرف سے درپیش خطرات کا قلع قمع کرنے پر مرکوز ہے۔ اس طرح کے سوالات کو بعد میں کسی مرحلے پر دیکھا جائے گا‘‘۔
دی ٹائمز کی تحقیقات اسرائیلی حکومت کے اپنے داخلی دستاویزات اور پنڈورا نامی فوجی دستاویزات کے تجزیے پر مبنی ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں وڈیوز اور ان باڈی کیمروں کی بنائی ہوئی فوٹیجز شامل ہیں جو حماس کے جنگجوئوں نے اپنے جسموں کے ساتھ باند ھ رکھے تھے۔ ان میں کلوز سرکٹ سرویلینس کیمروں کی فوٹیج بھی شامل ہے۔ دی ٹائمز کی ٹیم نے درجنوں فوجی افسروں کے انٹرویوز کیے، فوجی جوانوں اور چشم دید گواہوں کی فہرستیں بنائیں اور انہوں نے اپنی شناخت صیغۂ راز میں رکھنے کی شرط پر یہ سب کچھ بتایا تھا کیونکہ انہیں فوجی آپریشنز کے بارے میں عوام کے سامنے کسی قسم کی بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ دستاویزات اور انٹرویوز کے ذریعے نئے نئے انکشافات ہوئے ہیں اور نئی تفصیلات منظرعام پر آئی ہیں۔ ان میں عسکری ماہرین کے تجزیے اور تخمینے بھی شامل ہیں اور ’’دی پِٹ‘‘ کی طرف سے اس دن کی صبح جاری ہونے والے احکامات بھی پڑھنے کو ملے ہیں۔ جب ان تمام چیزوں کو ملا کر دیکھا اور پڑھا جائے تو ہر چیز واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کو روکنے میں فوجی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پلاننگ کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ حملہ ہونے سے پہلے والے مہینوں اور سالوں کے دوران انٹیلی جنس حکام کی غلطیاں اور ناقص اقدامات بھی اس ناکامی کی بڑی وجہ بن کر سامنے آئے ہیں۔
اسرائیل کی ملٹری اور سکیورٹی ایجنسیوں نے بار بار اس طرح کی رپورٹس اور ریویوز جاری کیے ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ حماس نہ تو اس قدر بڑے حملے میں دلچسپی رکھتی تھی اور نہ ہی اس میں اتنی استعداد اور صلاحیت پائی جاتی تھی کہ وہ اسرائیل پر اتنا بڑا حملہ کر سکے۔ اسرائیلی اتھارٹیز اس وقت بھی ان خوشگوار تجزیوں پر انحصار کرتی رہیں جب انہوں نے حماس کے حملے کا ماسٹر پلان حاصل کر لیا تھا جسے دیکھ کر انہیں وقت سے پہلے یہ معلوم ہو گیا تھاکہ ایسی جارحیت بالکل متوقع تھی اور حماس کی پلاننگ کے عین مطابق سب کچھ درست سمت میں ہوا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہوا تھا کہ کٹیٹ کونن نیٹ گارڈ نامی ایک نیم منظم تنظیم سرحدوں کے قریب واقع قصبوں اور دیہات میں دفاع کی پہلی لائن کے طور پر اپنے فرائض انجام دے گی۔ لیکن ان گارڈز میں دفاع کی ٹریننگ کے مختلف معیار پائے جاتے تھے اور اس بات کا انحصار اس چیز پر تھا کہ ان کا انچارج کون تھا۔ ان رضاکار تنظیموں کے حوالے سے براہ راست معلومات رکھنے والے اسرائیل کے دو فوجی اہلکاروں نے بتایا کہ کئی سال سے یہ وارننگ دی جا رہی تھی کہ ان گارڈز میں سے کئی یونٹس ایسے بھی ہیں جن کی ٹریننگ انتہائی ناقص تھی اور ان کے پاس ہتھیاروں اور آلات کی بھی شدید قلت محسوس ہو رہی تھی۔ (جاری)