اسرائیلی فو ج ہر محاذ پر ناکام کیوں؟ …(2)
تحریر: ایڈم گولڈمین
اصل بات یہ تھی کہ اسرائیلی فوج کے ریزرو دستے فوری طور پر تعیناتی اور حرکت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بعض لوگ یہ سمجھے کہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق جنوب کی سمت جانے کے لیے کہا گیا تھا۔ ریزروز فورس کے ایک میجر ڈیوڈی بن ضیون کا کہنا ہے کہ ریزرو فورس کو حملے کی صورت میں فوری طور پر پیش قدمی کی ٹریننگ ہی نہیں دی گئی تھی۔ ٹریننگ کے دوران انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ پہلے اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی ممکنہ حملے کا پیشگی پتا چلا کر اطلاع دیں گی یوں ریزرو دستوں کو تعیناتی اور تیاری کے لیے مناسب وقت دیا جائے گا۔
حملے کی صبح کمانڈو یونٹس نے سب سے پہلے حرکت میں آنا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب انہیں حملے کے بعد فوری طور پر سوشل میڈیا پر لوگوں کی مدد کرنے یا حماس کے جنگجوئوں کے داخلے کی خبروں کے بعد روانگی کا حکم دیا گیا تو وہ فوراً حرکت میں آ گئے۔ دیگر یونٹس بھی تیار تھے اور انہیں بھی روانگی کا باقاعدہ حکم جاری کر دیا گیا۔ چھوٹی ٹیموں نے بتایا کہ بنیادی طور پر کمانڈرز اس خطرے کا درست ادراک ہی نہ کر سکے۔ اسرائیلی فوجی ایک مکمل جنگ کے بجائے محض پستول اور رائفلیں لے کر ہی حماس کے حملہ آوروں سے لڑنے نکل پڑے۔ نئی دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد نیویارک ٹائمز کی ٹیم نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے صورتحال کو سمجھنے میں سنگین غلطی کی۔ اس روز صبح کے ریکار ڈ سے پتا چلا کہ حملے کے دوران بھی اسرائیلی فوج یہی سمجھتی رہی کہ حماس شاید چند مقامات ہی سے سرحدی رکاوٹیں توڑنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔
ایک اور خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ‘ جو حملے کے کئی روز بعد تیار کی گئی تھی‘ دیکھنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حماس کے حملہ آوروں نے سرحد پر لگے جنگلے کو کم ازکم تیس سے زائد مقامات سے توڑ ڈالا اور بڑی سرعت کے ساتھ جنوبی اسرائیل میں آگے بڑھتے گئے۔ حماس کے جنگجوئوں کو مشین گنوں، راکٹ لانچروں، بارودی سرنگوں اور دیگر اسلحے سے لیس کرکے اسرائیل میں اتارا گیا تھا۔ وہ کئی دن تک اسرائیلی فوج کے ساتھ جنگ لڑ سکتے تھے۔ اسرائیلی کمانڈوز یہی سمجھتے رہے کہ وہ محض چند گھنٹے ہی لڑ سکتے ہیں۔ چالیس سالہ یائر انس بیکر کا تعلق اس ریزرو دستے سے ہے جو سات اکتوبر کو لڑائی میں شامل تھا‘ اس کا کہنا ہے کہ حماس کے جنگجوئوں کو فائر پاور میں ہم پر واضح سبقت حاصل تھی۔ ہم نے اس روز صرف پستول، رائفلیں یا سنائپر گنیں استعمال کی تھیں۔ صورت حال اس قدر سنگین تھی کہ نو بجے اسرائیل کی سکیورٹی ایجنسی شین بیٹ کے سربراہ نے ایک انوکھا حکم جاری کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ تمام جنگی تربیت یافتہ اسلحہ بردار ملازمین جنوب کی طرف روانہ ہو جائیں۔
جیسا کہ سویلین رضاکاروں نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا اور وہی ہوا کہ اسرائیل کی پہلی دفاعی لائن پر حماس نے فوری طور پر قابو پا لیا تھا۔ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے کئی یونٹس کے پاس اتنا اسلحہ بھی نہیں تھا کہ وہ چند گھنٹوں کی جنگ ہی لڑ سکتے۔ آرمرڈ کور کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل ہشام ابراہیم نے بتایا کہ حماس نے اسرائیل کی فائر پاور میں برتری سے نمٹنے اور اسے کمزور کرنے کے لیے بھی بڑی عسکری حکمت عملی سے کام لیا اور اس کے جنگجوئوں نے سب سے پہلے ٹینکوں پر حملہ کیا۔ ٹینکوں کے پاس گولہ بارود ختم ہو گیا اور ٹینک چلانے والے فوجیوں کو خود ہی زمینی جنگجوئوں سے لڑنا پڑا۔ ایک اور واقعے‘ جسے اسرائیلی میڈیا میں بہت کوریج ملی ہے‘ کے مطابق حماس نے ایک اسرائیلی ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا اور اسے غزہ کے قریب اترنے پر مجبور کر دیا۔ اس سے پہلے کہ ہیلی کاپٹر گر کر شعلوں کی لپیٹ میں آ جاتا‘ اس کا پائلٹ پیراشوٹ کی مدد سے جان بچانے میں کامیا ب ہو گیا۔ یہ تمام واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیل پر ایک بڑا حملہ ہوا تھا اور اسے انتہائی سنگین صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
لیکن اسی صبح حماس نے ایک اور اتنا خطرناک حملہ کر دیا کہ اسرائیلی فوج کو اس کی سمجھ ہی نہ آ سکی۔ رعیم فوجی اڈے پر حملے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں تعینات اسرائیلی فوجی حماس کے حملے کا مربوط جواب دینے کے بجائے صرف اپنی جانیں بچانے میں ہی لگے رہے۔ رعیم دراصل غزہ ڈویژن کا حصہ ہے جو اس علاقے میں ہونے والے فوجی آپریشنز کی نگرانی کرتا ہے۔ دو بریگیڈ یعنی جنوبی اور شمالی‘ دونوں یہاں مقیم ہیں اور ان کے ذمے چالیس میل کے سرحدی علاقوں کا دفاع کرنا ہے۔ دوسرے فوجی اڈوں کی طرح رعیم میں بھی فوجیوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا کیونکہ سا ت اکتوبر کو سمچت تورا اور یوم سبت کی چھٹی تھی۔ ایک سینئر فوجی افسر کے مطابق اس روز ایک بریگیڈ کمانڈر اور اہم سٹاف بھی ڈیوٹی پر نہیں تھا۔ حکام نے بتایا کہ انہیں طلوعِ آفتاب سے پہلے واپس ڈیوٹی پر بلا لیا گیا تھا کیونکہ اسرائیلی انٹیلی جنس حکام غزہ کی سرحد پر حماس کی غیر معمولی سرگرمی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایلیٹ میگلان کمانڈو یونٹ بھی اس فوجی اڈے کے باہر فرائض انجام دیتا ہے جو غزہ سے پچیس منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ ایک فوجی افسر کے مطابق: اس یونٹ کے ڈپٹی کمانڈر نے اسے سات اکتوبر کی صبح ساڑھے چھ بجے متحرک کر دیا تھا۔ لیکن اس ٹیم کو غزہ ڈویژن ہیڈ کوارٹرز کے اعلیٰ کمانڈروں کی طرف سے کسی قسم کی کوئی گائیڈ لائن موصول نہ ہوئی جس کا صاف مطلب ہے کہ انہیں خود اس حملے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ میگلان کو یہ اطلاع اس کے ایک انفارمیشن ذریعے یعنی چالیس سالہ رافیل ہیون نے دی تھی جو غزہ سے پانچ میل دور نیٹی وٹ کے قصبے میں اپنے والدین کے ہمراہ رہتا ہے۔ رعیم فوجی اڈے سے متنازع اطلاعات کے بعد تل ابیب میں اسرائیل کی فوجی کمان حماس کے حملے کی شدت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی۔ رافیل ہیون نے حماس کے حقیقی حملوں کی وڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھی تھیں اور اس نے ہی یہ اطلاعات میگلان کے افسروں کو بھیجی تھیں۔
رافیل نے فوری طور پر لوگوں کے پیغامات وٹس ایپ پر بھیجنا شروع کر دیے جو اپنے بچوں، دوستوں اور اپنی جانیں بچانے کے لیے اپیلیں کر رہے تھے۔ ایک میسج میں لکھا تھا کہ ’’ہائے رافیل ہم یہاں ایک انتہائی سنگین صورت حال میں پھنسے ہوئے ہیں‘‘۔ ایک اور میسج یوں تھا ’’پلیز! ہمیں بچانے کے لیے آ جائیں، ہم یہاں سولہ لوگ موجود ہیں‘‘۔ رافیل نے فوری طور پر یہ لوکیشنز کمانڈوز کو بھیجنا شروع کر دیں مگر وہ جنگ کی اس شدت کا درست ادراک کرنے میں ناکام رہے۔ میجر بن ضیون کا کہنا ہے کہ اس کا پیرا ٹروپر یونٹ وسطی اسرائیل میں اپنے فوجی اڈے سے ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو چکا ہے جو تل ابیب سے زیادہ دور نہیں ہے۔ وہ اپنے طور پر ہی حرکت میں آیا تھا۔ اسے توقع تھی کہ سڑکیں فوجیوں، عسکری آلات اور بکتر بند گاڑیوں سے بھری ہوں گی اور سب لوگ جنوب کی طرف رواں ہوں گے۔ اس نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’مگر سڑکیں تو بالکل خالی تھیں۔ جنگ کو سات گھنٹے ہو چکے تھے۔ وہ اپنے پاس کھڑے ایک ریزرو فوجی سے پوچھنے لگا کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کہاں ہیں؟‘‘۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)