ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ادویات، ٹیکنالوجی اور سرطان کا خاتمہ

تحریر: یوگر ساہن

کئی سال پہلے جب میں ایک جرمن ہسپتال کے سرطان وارڈ میں فزیشن تھا تو ہمیں اکثر مریض کویہ تکلیف دہ پیغام دینا پڑتا تھا کہ ہمارے پاس آپ کا مزید علاج نہیں ہے۔ اس وقت سرطان کا علاج صرف کیموتھراپی او رشعائیں ہی ہوتا تھا۔ لیکن اب سرطان کے علاج کا طریقہ کار یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ اب ایسی ادویات آ گئی ہیں جو سرطان کے ٹیومر کو درست جگہ پر ٹارگٹ کرتی ہیں۔ کئی ناقابل علاج سرطان اب آخری سٹیج پر بھی کنٹرول کیے جا سکتے ہیں؛ تاہم مہلک سرطان کے مریضوں کی اکثریت کا علاج آج بھی مشکل ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہر سال سرطان کی ریسرچ پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود آج بھی آخری سٹیج کا سرطان ناقابل علاج ہے ؟ اس سوال کا جواب سرطان کی نوعیت میں مضمر ہے۔ سرطان صحتمند خلیوں میں ہونے والی بعض جینیاتی تبدیلیوں یعنی میوٹیشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لائف سٹائل، طویل بیماری اور کیمیکلز میں زیادہ وقت کے لیے رہنا ان تبدیلیوں کی رفتار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب یہ سارے عوامل جمع ہو جاتے ہیں تو خلیوں میں تبدیلی مہلک سرطان میں بدل جاتی ہے۔ اس حوالے سے دو مضمرات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ ہر انسان کا سرطان مختلف ہوتا ہے یعنی ایک جیسے سرطان میں دو مریضوں میں تبدیلی کا یہ عمل مختلف ہو گا۔ دوم ہر ٹیومر میں اربوں خلیو ں کی ترتیب مختلف ہو گی اور ہم اس کا جو بھی علاج کرنا چاہیں گے وہ سرطان ہمارے امیون سسٹم سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اگر ہم اپنے اس خفیہ دشمن کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے امیون سسٹم کو مسلسل ایک نئے انداز میں سدھانا ہو گا۔ ہمارا دفاعی نظام مختلف صلاحیتوں کے حامل اربوں خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں ٹی سیل ہمارے سب سے نمایاں محافظ ہوتے ہیں جو ہمارے جسم میں مسلسل گھومتے رہتے ہیں۔ ہمارے امیون سسٹم کی ایسی پروگرامنگ ہوئی ہوتی ہے کہ وہ وائرس اور بیکٹیریا جیسے بیرونی خطرات سے تو نمٹ سکتا ہے لیکن خلیے میں جنم لینے والی اندرونی تبدیلیوں سے نہیں؛ چنانچہ ہمارا امیون سسٹم شاید ہی ان تبدیلیوں کو پکڑ سکے۔ اب آپ ایسے مستقبل کا تصور کریں جب ہر مریض کے سرطان کے مطابق ویکسین دستیاب ہو گی۔ یہ ویکسین ہر سرطان میں ان تبدیلیوں کی نوعیت کے مطابق اس کا علاج کرے گی اور ا میو ن سسٹم کو ٹیومر پر کثیر جہتی حملوں کی ہدایات دے گی۔

آج سے تین عشرے پہلے جو بات محض ایک تصور تھی آج ہم اس کے کلینکل ٹرائلز میں سے گزر رہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی سرطان کے علاج میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ اگر جدید سیکوئنسگ ٹیکنالوجی کی مد دسے ڈی این اے کی ریڈنگ کر لی جائے تو ہائی ریزولیوشن پر چھوٹی سے بائیوپسی کے ذریعے کسی بھی مریض کے سرطان کی جینیاتی ساخت کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ سیکوئنسنگ جو ڈیٹا فراہم کرتی ہے اس کی جدید کمپیوٹرز کے ذریعے پروسیسنگ ہو جاتی ہے۔ ہم کمپیوٹراور اے آئی الگورتھم کی مدد سے خلیے کی بالکل درست میوٹیشن یا تبدیلی کا تعین کر سکتے ہیں۔ یہی بات ہمارے ’’وانٹڈ‘‘ پوسٹر کی بنیاد بن جاتی ہے جسے ویکسین میں موجود mRNA کے میسنجر کے ذریعے سرطان کے خلیے تک پیغام بھیجا جاتا ہے۔ RNA ہمارا وہ ترجیحی ویکسین پلیٹ فام ہے جو نیچر کا طاقتور میسنجر ہے۔ اسے چند ہفتوں کے اندر ڈیزائن اور مینوفیکچر کرکے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سرطان کا ہر مریض اپنی مطلوبہ ویکسین کے لیے سخت ترین ٹیسٹوں میں سے گزر رہا ہوتا ہے۔ کلینکل ٹرائلز تک ان کی رسائی بہت محدود ہوتی ہے۔ جو ٹی سیل ٹیومر کے خلیوں کی شناخت کر سکتے ہیں ان ٹی سیلز کو ایکٹویٹ کر کے کم تعداد میں مریضوں کو ہی ان ٹرائلز میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی سرطان کے خلاف جنگ لڑنے میں ہمارے امیون سسٹم کی یہی پہلی ضرورت ہوتی ہے۔ لبلبے کے سرطان کے کلینکل ٹرائلز میں مخصوص ویکسین نے سرجری کے بعد پیدا ہونے والے مہلک اثرات کو کم کر دیا۔ ریسرچرز اب ایسے سرطانوں پر بھی کلینکل ٹرائلز کر رہے ہیں جن کا مقصد مخصوص ویکسینز کے نتائج کا موجودہ معیار کے ساتھ موازنہ کرنا ہے۔ آنے والے برسوں میں ان ٹرائلز سے ملنے والے ڈیٹا سے ہی معلوم گا کہ مخصوص ویکسینز سرطان کے علاج میں کس حد تک محفوظ اور مؤثر ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی عام طور پر ساتھ ساتھ چلتی ہے مگر جب ان دونوں کو ملا کر استعمال کیا جاتا ہے توحیران کن نتائج ملتے ہیں۔ mRNA اور مصنوعی ذہانت کے ملاپ سے ملنے والے نتائج اس کی بہترین مثال ہیں جن نے سرطان کے مریضوں سے متعلق انقلابی میڈیکل علاج کی بنیاد فراہم کی ہے اور یوں ادویات کے ایک جدید اور انقلابی دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ مصنوعی ذہانت آئندہ بھی سرطان کے علاج کیلئے مخصوص ویکسینز اور ادویات کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ اے آئی الگورتھم بڑی تیزی سے جینیاتی ڈیٹا کا تجزیہ کر سکتا ہے اور ہمیں ان پیٹرنز کی شناخت کرنے میں مدد کرتا ہے جسے ہم روایتی طریقوں میں نظر انداز کر جاتے ہیں۔ جیسے جیسے عالمی سطح پر سرطان سے متعلق ڈیٹا جمع ہو رہا ہے‘مخصوص ویکسیز میں بھی بہتری آتی جائے گی۔ جیسے جیسے سرطان کے مریض کے ٹیومر میں تبدیلی آتی جائے گی‘ ٹیکنالوجیز کی مدد سے ہم اتنی ہی تیز رفتار ی سے mRNA کی ساخت میں بھی مخصوص اور ضروری تبدیلیاں کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیکل ریسرچ کے میدان میں اے آئی ٹیکنالوجی اور mRNA کے ملاپ سے ایک ایسے انقلابی دور کا آغاز ہو گا جس کا موازنہ مائیکرو چپس کے حوالے سے مور کے قانون سے کیا جا سکتا ہے۔ مور کے قانون نے کمپیوٹر کی طاقت کے بارے میں پیشگوئی کی تھی ہم اسی طرح کی تیز رفتاری اپنی فوری میڈیکل ضروریات پوری ہونے میں بھی دیکھ سکیں گے۔ اگرچہ ابھی کچھ عدم مساوات بھی نظر آتی ہے۔ اب یہ سائنسدانوں، حکومت، صحت عامہ کے سرکاری شعبے اور سوسائٹیز کی ذمہ داری ہے کہ وہ عملی اقدامات کی طرف پیشرفت کریں تاکہ ہمارے موجودہ علم اور ٹیکنالوجیکل ترقی میں پائے جانے والی خلیج کو دور کیا جا سکے۔ چونکہ سرطان ایک انتہائی ذاتی قسم کی بیماری ہے اس لیے وقت آ گیا ہے کہ اس کا علاج بھی انفرادی سطح پر ہی کیا جائے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement