ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

فضائی سفر میں مسافروں کی سیفٹی … (1)

تحریر: زینب توفیقی

میںڈرھم سے نیویارک کی فلائٹ پر جا رہی تھی۔ دورانِ پرواز میں نے اپنی ساتھ والی نشست پر بیٹھے بے چین شخص سے بات کرنے کی کوشش کی کیونکہ مجھے محسوس ہوا تھا کہ وہ میری وجہ سے کچھ پریشان تھا۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ اس کے ساتھ کچھ گپ شپ کر لوں تو شاید اسے جہاز میں سفر کی بے چینی سے نجات مل جائے۔ میں نے نوٹ کیا کہ اس کی نظریں مسلسل میرے لیپ ٹاپ پر فکس تھیں جس پر لکھا آرہا تھا کہ ایک فضائی حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ جو میں دورانِ سفر پڑھ رہی تھی۔ میں نے جھٹ سے اپنا لیپ ٹاپ بند کردیا اور اس سے معذرت کرنے لگی۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ کس طرح فضائی حادثات سے متعلق یہ تحقیقاتی رپورٹس ہمارے لیے مفید ہوتی ہیں۔ میرے ذہن سے یہ بات تو نکل ہی گئی کہ میں اس وقت کہاں بیٹھی تھی اور میری نیت کسی طرح بھی اسے پریشان کرنے کی نہیں تھی۔ خیر آپ فکر نہ کریں‘ مگر یہ حقیقت تو ہے۔ 

نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی اس تحقیقاتی رپورٹ میں یہ لکھا ہوا تھا کہ آپ اپنی سیفٹی کا بہترین لیول کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ ان رپورٹس کی مدد سے ہمارا یہ یقین تازہ ہو جاتا ہے کہ اگر ہم پورے انسانی وسائل اور اپنے دماغ کا بھرپور استعمال کریں تو  انسانیت کیا کچھ حاصل کر سکتی ہے؟ یہ رپورٹس ہمیں اس امر کی یاد دہانی بھی کرواتی ہیں کہ بالکل ہماری آزاد ی کی طرح ان فضائی کمپنیوں میں سیفٹی کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم ان تجارتی ایئر لائنز میں بیٹھے اپنے دشمنوں یعنی لالچ‘ کوتاہی‘ عمل درآمد میں ناکامی اور لاپروائی کی مسلسل نگرانی کریں۔ چند روز بعد مجھے ایک ہی ہفتے میں ایسے دو حادثات کے بارے میں دو مزید رپورٹس بھی پڑھنے کے لیے ملنے والی ہیں جن میں سے ایک جاپان ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ کی طرف سے ہو گی۔ یہ دونوںحادثات ہمارے لیے بہت کچھ سیکھنے کے لیے کافی ہیں۔

دو جنوری کو ایک جاپانی کوسٹ گارڈ کا جہاز اور جاپان ایئر لائنز کی ایک A350 ایئر بس آپس میں ٹکرا گئے۔ یہ ایئر بس رن وے سے اتر کرآدھ میل دورجاکر رکنے سے پہلے آگ کے گولے میں تبدیل ہو گئی۔ حیران کن طور پر جہاز میں سوار تمام 379مسافروں کی زندگیاں محفوظ رہیں۔ پورا جہاز شعلوں کی لپیٹ میں آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ معجزاتی طور پر تما م مسافروں کو بحفاظت جہاز سے نیچے اتار لیا گیا تھا‘ تاہم کوسٹ گارڈز کے جہاز میں سوار چھ میں سے پانچ مسافر جاں بحق ہو گئے تھے۔

دوسرے حادثے میں پانچ جنوری کو جمعہ کے روز الاسکا ایئر لائنز کے بوئنگ 737میکس 9نے جیسے ہی اڑان بھری تو چند منٹ بعد ہی اس کا ایک ہنگامی دروازہ الگ ہو کر گر گیا چنانچہ جہاز کے اندر ہوا کے دباؤ میں تیزی سے خرابی پیدا ہو گئی۔ مسافروں نے میڈیا کو بتایا کہ اس ہنگامی دروازے کے پاس جو ایک بچہ بیٹھا تھا‘ ہوا کے تیز دباؤ کی وجہ سے اس کی شرٹ پھٹ گئی تھی جب کہ اس کی ماں نے اسے زور سے اپنے بازوؤں میں جکڑا ہوا تھا۔ جہاز فوراً واپس مڑا اور پورٹ لینڈ کے ہوائی اڈے پر بحفاظت اتر گیا۔ رپورٹس کے مطابق کسی مسافرکو بھی کوئی زخم نہیں آیا۔ یہ دونوںحادثات انتہائی بدترین صورت بھی اختیار کر سکتے تھے۔

دونوں ایئر لائنز میں سوار ہر مسافر کی جان معجزانہ طور پر بچ گئی تھی مگر معاملہ ایسا نہیں تھا جیسا کہ سب لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ معجزے دراصل ریگولیشن‘ ٹریننگ‘ مہارت‘ کوشش اور انفراسٹرکچر میں مسلسل بہتری اور سب سے بڑھ کر جہاز کے عملے کی بہادری کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔ مگر یہ بہادر اور پروفیشنل خواتین و حضرات بھی بعض طاقتور لوگوںکے کندھوں پر کھڑے تھے جن میں ماہر بیوروکریٹس‘ حادثے کی تحقیقات کے لیے بھیجے گئے فرانزک تفتیش کار شامل تھے‘ جنہوںنے حادثے کے ہر ممکنہ پہلو سے متعلق تفصیلات کے بارے میں ہزاروںصفحا ت پر مشتمل ثبوت جمع کیے۔ نیز یہ کہ یہ جہاز معجزانہ طور پر کیسے حادثے سے بال بال بچ گئے۔ نہ صرف پائلٹس بلکہ عملے‘ گراؤنڈ ٹریفک کنٹرول اور مینٹیننس کریو کی بھی ٹریننگ اور بار بار ٹریننگ کروائی جاتی ہے۔ نیز اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو اس کی وجہ کی نشاندہی اور ازالہ بھی کیا جاتا ہے۔ جاپان ایئر لائنز کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح مسافروں کو جہاز سے باہر نکالا گیا۔ کمرشل ایئر لائنز بھاری مقدار میں ایندھن اپنے ساتھ لے کر چلتی ہیں‘ اس لیے مسافروں کو فوری طور پر جہاز سے نکالا جاتا ہے تاکہ کسی غلطی کی صورت میں سارے مسافر آگ کے گولے میں پھنس نہ جائیں۔ پھر بھی تھوڑا بہت امکان رہ جاتا ہے۔

اس میںکچھ باتیں تو مسافروں کو بھی نظر آجاتی ہیں اور بڑی حد تک یہ بڑی تکلیف دہ ہوتی ہیں‘ تاہم یہ ایک وفاقی قانون ہے کہ ٹیک آف اور لینڈنگ کرتے وقت تمام ٹرے ٹیبلز کو سیدھا رکھ دیا جائے اور تمام نشستیں سیدھی ہونی چاہیئں۔ کیونکہ فضائی حادثات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں‘ اس لیے فلائٹ کے وقت جہازوں کے ٹیک آف کرنے اور لینڈنگ کے مواقع ہی سب سے خطرناک ہوتے ہیں‘ اس لیے آپ کے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں ہوتی کہ آپ مسافروں کو تیزی سے حرکت کرنے سے روک سکیں۔ اسی لیے بڑے سائز کی اشیا کو دور رکھنے کی ہدایت ہوتی ہے تاکہ ہنگامی صورتحال میں مسافروں کو نکالنے والا راستہ کھلا رہے۔ جاپانی جہاز سے مسافروںکو نکالے جانے والی وڈیوز سے پتا چلتا ہے کہ ان کے سامان کو نہیں چھیڑا گیا تھا اور یہ ایک اچھی بات تھی جس پر دیگر ایئر لائنز کو بھی عمل کرنا چاہیے۔ ان سیفٹی وڈیوز کو اس فیصلے کے پیچھے منطق کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے یعنی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سامان کو چھوڑ دینا کیوں ضروری ہے۔ پھر بھی مسافروں کو جہاز سے نکالنے میں نوے سیکنڈز سے زیادہ وقت لگا کیونکہ ایئر بس کو یہ دکھانا تھا کہ کتنے کم سے کم وقت میں انخلا کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور اس روز تو بہت سی رکاوٹیں حائل تھیں۔ آٹھ میں سے صرف تین ہنگامی راستے قابلِ استعمال تھے اور جہاز دھوئیں سے بھر رہا تھا۔ جہاز تھوڑا آگے کو بھی جھک گیا تھا کیونکہ اس کا لینڈنگ گیئر بھی خراب ہو گیا تھا اور جہاز کا عمودی اینگل مسافروں کو نکالنے میں رکاوٹ پیدا کر رہا تھا۔ انٹرکام بھی کام نہیں کررہے تھے‘ اس لیے عملے کو مجبوری میں مسافروں کو ہدایات دینے کے لیے میگا فون استعمال کرنا پڑے۔ پھر بھی تمام مسافروں کو بحفاظت نکال لیا گیا۔

مسافروں کو اور بھی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ آج کل ایسے جہاز ڈیزائن کیے جا رہے ہیں جن میں آگ سست رفتاری سے پھیلتی ہے۔ اور بھی کئی طرح کی بہتری لائی جا رہی ہے مثلاً ان میں ایسی نشستیں لگائی جاتی ہیں جو بڑے سے بڑے جھٹکے کو برداشت کر سکیں اور ان میں ایسا مٹیریل استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ  جلدی آگ بھی نہیں پکڑتیں۔ یہ سارے سبق 1980ء اور 1990ء کی دہائیوںمیں ہونے والے فضائی حادثات سے سیکھے گئے ہیں۔ جاپانی جہاز نے بھی نوے سیکنڈز سے زیادہ وقت تک شعلوں کی مزاحمت کی اور اس دوران تمام مسافروں کو نکال لیا گیا۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں