ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

صدر بائیڈن اور امیگریشن ایشوز

تحریر: مائیک میڈرڈ

یوکرین فنڈنگ اور میکسیکو کی سرحد کے تحفظ کے ایشوز پر صدر بائیڈن اور ان کی جماعت کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ ریپبلکن پارٹی کے سخت گیر ارکان نے ایک ایسے بل کا مطالبہ کیا ہے جس سے صدر ٹرمپ کے دور میں لانچ کی گئی پالیسیوں کی عکاسی ہو گی جن میں سیاسی پناہ کا ایشو، بارڈر سکیورٹی میں اضافہ اور کمپنیوں کی طرف سے ملازمت کی اہلیت کا جانچ کرنے والا ای ویریفائی سسٹم کا مینڈیٹ شامل ہیں۔ پرمیلا جے پال جیسے ڈیموکریٹس ارکان نے ان تجاویز کو ظالمانہ، غیر انسانی اور ناقابلِ عمل قرار دیا ہے لیکن ریپبلکن ارکان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ووٹرز کے دل کی بات کی ہے۔ حالیہ پولز نے ثابت کیا ہے کہ ان کا موقف درست ہے۔ سی بی ایس نیوز نے اتوار کو ان پولز کے نتائج جاری کیے ہیں جن کے مطابق 68 فیصد امریکی شہریوں نے صدر بائیڈن کی بارڈر سکیورٹی کو ہینڈل کرنے کی پالیسی کو مسترد کر دیا ہے۔

ان کی جماعت کے اندر اور باہر بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ریپبلکن پارٹی کی ڈیل سے اتفاق کرنے پر صدر بائیڈن مستقبل میں کوئی پالیسی بنانے کا اپنا اخلاقی جواز کھو دیں گے۔ سچ یہ ہے کہ ابھی ان کے پاس بارڈر سکیورٹی پالیسی میں مناسب تبدیلیاں کرنے کا موقع ہے جس کے بعد ان کی جماعت کثیر نسلی ورکنگ کلاس کے اتحاد کی خواہش پوری کر سکتی ہے۔ ایک خودمختار ریاست کی سرحدوں کو محفوظ بنانا نسل پرستی نہیں ہے۔ یہ کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ ڈیمو کریٹس سمیت بہت سے ووٹرز یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ بائیڈن حکومت اپنی یہ ذمہ داری احسن انداز میں نبھانے کا بندوبست کرے۔ ایک حالیہ فاکس نیوز پول سے ثابت ہوا ہے کہ بارڈر سکیورٹی کے مسئلے پر بائیس فیصد ڈیمو کریٹ ووٹرز بھی ریپبلکن پارٹی کے موقف کے حامی ہیں۔ کسی بھی دوسرے گروپ کے مقابلے میں لاطینی نسل کے ووٹرز ایسے سیاسی نظریات کے حامل ہیں جو نسلی اعتبار سے امیگرنٹ تجربے سے مطابقت رکھتے ہیں؛ تاہم یہ ووٹرز بھی بارڈر سکیورٹی کے معاملے میں اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

پیو ریسرچ سنٹر کی طرف سے اپریل 2021ء میں کیے گئے سروے کے مطابق 44 فیصد ہسپانوی نژاد اور مجموعی طور پر 48 فیصد ووٹرز سمجھتے ہیں کہ امیگریشن ایک سنگین مسئلہ ہے اور جون 2020ء کے بعد سے اس میں پندرہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور ترقی پسند ایکٹوسٹس کی اکثریت کا تاثر یہ ہے کہ ہسپانوی نژاد ووٹرز کی ترجیح بارڈر سکیورٹی کے ایشو پر امیگریشن پالیسی میں نرمی پید اکرنا ہے۔ اگر صدر بائیڈن دوبار ہ صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے اس بیانیے کو ازسر نو وضع کرنا ہو گا جو اب قدامت پسندی کا شکار ہو گیا ہے اور ان کی پارٹی کو بارڈر سکیورٹی کے معاملے پر مزید اقداما ت کرنا ہوں گے۔

یہ جہاں ایک دانشمندانہ اقدام ہو گا وہیں اس پر ڈیمو کریٹک پارٹی کے اندر ایک سول وار شروع ہو جائے گی جبکہ 2020ء کے الیکشن میں صدر بائیڈ ن کی ساری انتخابی مہم کا فوکس ریپبلکن پارٹی کی ان سفید فام مضافاتی خواتین پر تھا جو ریپبلکن پارٹی کو چھوڑ رہی تھیں یعنی ڈیمو کریٹس کی ایک روایتی اقلیت نے جن میں لاطینی النسل، سیاہ فام اور ایشین ووٹرز شامل ہیں‘ اپنا چانس مزید کم کر لیا۔ نوجوان اور رنگدار ووٹرز کے اہم اتحاد نے سب سے زیادہ سیاسی سپورٹ میں کمی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اگر وہ اس وقت ریپبلکن پارٹی کے ساتھ کوئی سمجھوتا کر لیتے تو ان کا وہ غیر روایتی اتحاد مزید مضبوط ہو جاتا جس نے انہیں چار سال پہلے صدر منتخب کرایا تھا۔ لاطینی النسل ووٹرز نے پچھلے چار قومی انتخابات میں دائیں بازو کی طرف شفٹ ہو کر ڈیمو کریٹس کو حیران کر دیا ہے۔ یہ شفٹ امیگریشن اصلاحات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ بھی ناقابل تردید امر ہے کہ اس کا اظہار زیادہ تر سرحدی ریاستوں‘ خاص طور پر ٹیکساس اور نیو میکسیکو‘ میں ہوا ہے جہاں یہ بحران سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ ڈیمو کریٹس کی بارڈر سکیورٹی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکامی نے انہیں ریپبلکن پارٹی کی اس تنقید کی زد پر رکھ لیا ہے کہ وہ اوپن بارڈرز کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

صدر بائیڈن جن کی انتخابی مہم میں اب یہ اعتراف بھی کیا جا رہا ہے کہ لاطینی ووٹرز کی طرف سے ان کی سپورٹ میں کمی آئی ہے اور اب ایڈووکیسی گروپس کی طرف سے شدید دبائو ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو دس سال پہلے کے مقابلے میں بارڈر سکیورٹی کے ایشو پر زیادہ ترقی پسند موقف اپنانا چاہئے حالانکہ سروے بتا رہے ہیں کہ لاطینی ووٹرز کا رجحان مخالف سمت کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔ صدر بائیڈن کو اپنی پارٹی کے سرحدی ڈاکٹرائن کو اور لاطینی نژاد ووٹرز کے اس پالیسی کے بارے میں نظریات کو چیلنج کرنا پڑے گا اور یہ ایک ایسا اقدام ہو گا جو ڈیموکریٹک پارٹی کے موقف کو ازسر نو تشکیل دے گا تاکہ لاطینی ووٹرز میں آنے والی ڈیمو گرافک تبدیلیوں کی وجہ سے طویل اور قلیل مدتی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ لاطینی نژاد ووٹرز میں دائیں بازو کی طرف شفٹ نے لاطینی امیگرنٹ ایڈووکیسی گروپس اور ان کی دوسری اور تیسری نسل کے بچوں میں پائی جانے والی اس ناخوشگوار خلیج کو مزید عیاں کر دیا ہے جو 1990ء کی دہائی میں بہت بڑھ گئی تھی۔ بچوں کی وہی نسلیں اب لاطینی ووٹرز میں چھائی ہوئی ہیں۔

صدر بائیڈن کی ری الیکشن حکمت عملی اب کھل کر ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے لیکن اسے درست کیا جا سکتا ہے۔ غیر دستاویزی امیگریشن اور اس سے متعلقہ دیگر امور پر ڈیمو کریٹک پارٹی کے حامی لاطینی نژاد عناصر نے بہت زور دے رکھا ہے جن میں کنسلٹنٹس بھی ہیں اور بہت سی دیگر تنظیمیں بھی اور یہ سب ایک گھسے پٹے بیانیے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جبکہ لاطینی ووٹرز کی ساری توجہ معاشی امور اور پبلک سیفٹی جیسے ایشوز پر مرکوز ہے اور حالیہ پولز میں ریپبلکن پارٹی نے محنت کش ووٹرز میں بہتر نتائج دکھائے ہیں۔ امیگریشن اقدامات جنہیں ترقی پسند اور لاطینی ڈیمو کریٹس پسند کرتے ہیں ایوان نمائندگا ن میں بیٹھے ریپبلکنز کے لیے ایک نان سٹارٹر ہے۔ صدر بائیڈن اگر سرحدی سکیورٹی بڑھانے اور سیاسی پناہ کے طلبگاروں پر سختی کرنے کا وعد ہ کر لیں تو یہ ان کی طرف سے ایک زبردست معاشی پیغام ہو گا اور یہ ایسا ایشو ہے جس کے بارے میں لاطینی النسل ووٹرز پول کرانے والوں کو بتا رہے ہیں کہ اس سلسلے میں وہ مزید اقدامات کا سننا چاہتے ہیں۔ صدر بائیڈن خود کو اپنے دوبارہ انتخاب کے امکانات کو ایک چوراہے پر کھڑا دیکھتے ہیں۔ وہ بظاہر بارڈر سکیورٹی کی مخالفت کی پالیسی کی رفتار کو دو گنا کر سکتے ہیں یا وہ ایک ایسی بحث شروع کرا سکتے ہیں جس کا مقصد دوبارہ سے ایسے نسلی اتحاد قائم کرنا ہو جو انہیں اور براک اوباما کو منصبِ صدارت پر لانے کا سبب بن گیا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہیں بس یہ دعویٰ کرنا ہو گا کہ وہ امیگریشن سے متعلقہ نسلی تعلقات پر فوکس کرنے کے بجائے ایک پورے لاطینی ایجنڈا کو لے کر چلیں گے جو اپنے حجم سے کہیں بڑا ہو چکا ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement