شہدائے غزہ کی توہین
تحریر: راجا عبدالرحمن
کریم صباوی کی ایک کمبل میں لپیٹی میت چار روز تک ایک خالی اپارٹمنٹ میں پڑی رہی کیونکہ اس کی فیملی کسی دوسری جگہ پناہ لیے ہوئے تھی۔ اس کے والدین نے بتایا کہ وہ اسرائیل کی شدید بمباری میں شہید ہوا تھا اور ان کے لیے ناممکن ہو گیا کہ وہ باہر نکل کر اپنے دس سالہ بیٹے کی تدفین کر سکیں۔ اس کی فیملی نے ہلالِ احمر والوں کو مدد کے لیے بلایا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کی سڑکوں پر قبضہ کر رکھا تھا اور وہ کسی کو بھی ریسکیو کرنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ والدین دہرے دکھ کا شکار تھے۔ ایک تو بچے کی موت کا دکھ اور اوپر سے بچے کو تدفین کی بھی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اس کے باپ نے بتایا کہ چوتھے روز میں نے کہا کہ ’’اب میں بھی اس کے ساتھ ہی دفن ہوں گا یا بچے کو دفن ہی نہیں کروں گا‘‘۔ پھر اس نے اپنے بیٹے کو گھر کے عقب میں امرود کے ایک پودے کے نیچے دفن کر دیا۔ صباوی کہہ رہا تھا کہ ’’ہر انسان کو تدفین کا حق ملنا چاہئے‘‘۔
غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد اب مرنے والوں کو جلدی میں جنازوں کے بغیر دفن کرنا پڑتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اپنے مرحوم عزیز کے ساتھ ہی مارے جائیں۔ سات اکتوبر کے بعداب تک چوبیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اس صدی میں اتنی تیزی سے سویلینز نہیں مارے گئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ’’اس جنگ نے غزہ کو بچوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے‘‘۔ نصر ہسپتال کے ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ ’’صورتِ حال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ اب تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کا پیارا تو خوش نصیب ہے کہ اس کی تدفین ہو گئی ہے‘‘۔
روایتی طور پر فلسطینی اپنے مرحومین کو جنازے کے بعد دفن کرتے ہیں اور تین دن کے لیے سڑک پر ہی تعزیت کے لیے خیمے لگا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اس جنگ نے اس رسم کو بھی ناممکن بنا دیا ہے۔ اب مرنے والوں کو ہسپتال کے لان یا باغ میں اجتماعی قبروں میں دفن کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کی قبر پر کوئی نشانی بھی نہیں رکھ سکتے۔ صرف بیگ پر مرنے والے کا نام لکھا ہوتا ہے۔ اگر ہو سکے تو ہسپتال کے اندر ہی جلدی سے نمازِ جنازہ پڑھا دی جاتی ہے۔ فلسطینی ہلالِ احمر کے ترجمان نبیل فرسخ نے بتایا کہ جنگ نے امدادی کارکنوں کے لیے موقع پر جانا یا ملبے سے لاشو ں کو نکالنا بھی ناممکن بنا دیا ہے۔ غزہ حکام کے مطابق آج بھی سات ہزار سے زائد افراد کا کچھ پتا نہیں ہے۔ شاید وہ ملبے کے نیچے دفن ہو چکے ہیں جس پر سپرے گن سے ممکنہ مرحومین کے نام لکھ دیے گئے۔
چونکہ بیس لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور اسرائیلی فوج کی موجودگی میں جنوبی غزہ کی طرف نقل وحرکت بھی ممکن نہیں رہی۔ لوگوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اب تو سڑکوں پر پڑی کئی لاشیں گل سڑ گئی ہیں۔ اسرائیلی فوجی ان لاشوں کو ڈھانپنے یا دفن کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان فوجیوں کا کہنا ہے کہ ہم نے آپریشنل وجوہ سے لوگوں کو ان لاشوں کے قریب آنے سے منع کر دیا ہے کہ کہیں مرنے والوں میں کوئی اسرائیلی یرغمالی شہری نہ ہو۔ کریم کے والدین کہتے ہیں کہ ہم اگر اپنے بیٹے کی حفاظت نہیں کر سکے توکم از کم جو ممکن تھا‘ وہ تو کر چکے۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی فضائیہ نے اس وقت ان کے گھر کے قریب ہی بمباری کی تھی جب ان کی فیملی لنچ بنا رہی تھی۔ باپ حمزہ صباوی فضا میں اچھلا اور پھر زمین پر آ گرا۔ کچن کا دروازہ اس کے اوپر گر گیا تھا۔ جب وہ اٹھا تو اس کا بیٹا کریم خون میں لت پت پڑا تھا۔ بازو زخمی ہونے کے باوجود وہ اٹھا۔ اس کی فیملی قریبی اپارٹمنٹ کی طرف بھاگ گئی تھی۔ کریم ابھی سانس لے رہا تھا‘ اس کے باپ نے اپنے طور پر اس کا سی پی آر کرنے کی کوشش کی مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمسائے وہاں پہنچے اور کریم کی میت کو ایک کمبل میں لپیٹ دیا۔ باپ نے بتایا کہ اسرائیلی بمباری یا فوجیوں کے ہاتھوں مرنے کے خوف سے اس نے تدفین کے لیے چار دن تک انتظار کیا۔ پانچویں روز صباوی اور اس کے ایک ہمسائے نے میت کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ انہوں نے عمارت کے عقب میں قبر کھودی اور کریم کو اس میںدفن کر دیا پھر قبر پر مٹی ڈالی اور تیزی سے عمارت کے اندر چلے گئے۔ صباوی نے بتایا کہ اگلے روز میں پھر باہر گیا اور قبر پر مزید مٹی ڈالی۔ مجھے جیسے ہی موقع ملتا اس پر مزید مٹی ڈال دیتا تاکہ وہ ایک قبر بن جائے۔ اس کی بیوی سوہا صباوی نے بتایا کہ لوگ مجھے کہتے ہیںکہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم اپنے بیٹے کی میت کو دفنا سکی ہو کیونکہ بہت سے والدین اپنے بچوں کی تدفین بھی نہیںکر سکے۔
احمد الحطاب چار بچوں کا باپ ہے۔ سات نومبر کو ایک راکٹ اس کے گھر سے ٹکرایا۔ اس وقت گھر میں بتیس فیملی ممبر تھے جن میں انیس بچے تھے۔ اس راکٹ حملے میں دس لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔ الحطاب اور اس کے تین بیٹے ملبے میں سے جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک بیٹے کی گردن میں فریکچر ہو گیا تھا اور اس سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے دو بیٹے اپنے ہمسائے کے حوالے کیے اور زخمی یحییٰ کو ایک قریبی ہسپتال میں لے گیا۔ اگلی صبح وہ اپنے ہمسایوں اور عزیزوں کے ہمراہ واپس آیا تاکہ اپنے چار پیاروںکی تدفین کر سکے۔ ان سب کو قریب ہی ایک اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا کیونکہ دور جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ کئی قبرستانوںکو بھی اسرائیلی فوج نے ملیامیٹ کر دیا۔ باقی کے چوبیس فیملی ممبرز کو بھی ملبے میں سے نکالا گیا تھا۔ الحطاب نے بتایا کہ میں اپنے بچے کی سرجری کے لیے تین دن ہسپتال میں رہا۔ ہسپتال بھی بمباری کی وجہ سے گرنے والا تھا۔ اسے بتا دیا گیا تھاکہ اس کے بیٹے کے بچنے کی امید نہیں ہے۔ چونکہ سارے رشتے دار وہاں سے جا چکے تھے تو اس نے بھی بیٹے کو وہیں چھوڑ کر جانے کا کڑا فیصلہ کر لیا تاکہ باقی بچوں کو جنوبی غزہ کی طرف لے جائے۔
چار دن بعد ایک دوست نے بتایا کہ اس کا بیٹا فوت ہو گیا تھا اور اسے بھی دیگر افراد کے ہمراہ ہسپتال ہی میں دفنا دیا گیا تھا۔ میڈیکل سٹاف نے بتایا کہ جب اسرائیلی فوج نے انہیں وہاں سے نکلنے کا حکم دیا تو وہ میتوںکو وہیں چھوڑ کر آ گئے۔ الحطاب نے بتایا کہ اب وہ اپنے فیملی ممبرز کی لاشیں نکالنے کے لیے واپس جانا چاہتا ہے۔ کسی کی میت کو دفن کرنا اسے عزت دینا ہوتا ہے۔ اس سے دل کو سکون ملتا ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ اسے کہاں دفن کیا گیا ہے۔
آسٹریا میں مقیم پینتیس سالہ فاطمہ الرئیسی نے پچھلے ہفتے ہی اپنے دو بھائیوں سے فون پر بات کی تھی جنہوں نے اسے بتایا کہ وہ واپس اپنے گھر غزہ سٹی جا رہے ہیں۔ لیکن ایک اسرائیلی فضائی حملے میں والدین سمیت اس کے آٹھ فیملی ممبرز شہید ہو گئے۔ حملے کے فوراً بعد تباہی کے منظر کو ایک فوٹو گرافر نے اپنے کیمرے سے پکچرائز کر لیا تھا۔ مرنے والوںکو رات گئے دفن کر دیا گیا؛ تاہم اس کی فیملی کے پانچ لوگ ابھی تک ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)