ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

2023ء: ریکارڈ توڑ گرم سال

تحریر: ریمنڈ ژونگ

تمام اعداد و شمار تو دستیاب ہو گئے ہیں‘ اب سائنسدان اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ کس مہینے سے دنیا کو گرم ترین سال کے سگنل ملنا شروع ہو گئے تھے۔ پچھلی ڈیڑھ صدی کے دوران گزشتہ سال ہمارے کرۂ ارض کا گرم ترین سال تھا۔ سال کے وسط میں عالمی درجہ حرارت نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑنا شروع کر دیے تھے اور یہ سلسلہ کہیں نہیں رکا۔ پہلے جون نے ریکارڈ توڑے‘ پھر جولائی گرم ترین جولائی بن گیا اور یہ سلسلہ دسمبر تک جاری رہا۔ یورپی یونین کے کلائمیٹ مانیٹر نے منگل کو یہ اعلان کیا ہے کہ انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے کے مقابلے میں پچھلے سال زمین کے اوسط درجہ حرار ت میں 1.48 ڈگری سیلیس یا 2.66 ڈگری فارن ہائیٹ کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے 2016ء گرم ترین سال ڈیکلیئر ہوا تھا مگر پچھلا سال اس سے کہیں زیادہ گرم تھا۔ موسمیاتی سائنسدانوں کو اس بات پر قطعی حیرت نہیں ہوئی کہ گرین ہائوس گیسز کے مسلسل اخراج کی وجہ سے کرۂ ارض کا درجہ حرارت نئی بلندیوں کو چھونے لگا ہے۔ ریسرچرز یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا 2023ء کا سال یہ پیش گوئی کر رہا ہے کہ اب ایسے کئی سال آئیں گے جو گرم سال کے ریکارڈ ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ ہمیں حیرت میں بھی ڈالیں گے۔ دراصل وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہ ڈیٹا اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ کرۂ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔

یورپی یونین کے کوپر نیکس کلائمیٹ چینج سروس کے ڈائریکٹر کارلو بون ٹیمپو کہتے ہیں کہ جب سائنسدان اپنے اعداد و شمار کا کلائمیٹ کے ماضی بعید کے برسوں کے ارضیاتی ثبوتوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو 2023ء پچھلے ایک لاکھ سال میں گرم ترین سال نظر آتا ہے۔ ’’جب آخری مرتبہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا تھا تو ان دنوں نہ کوئی شہر ہوتے تھے نہ کتابیں اور زراعت اور نہ ہی پالتو جانور اس زمین پر ہوتے تھے‘‘۔ زمین کی تپش میں ایک ڈگری کا دسواں حصہ بھی اضافہ ہوتا ہے تو اس سے غیر معمولی تھرمو ڈائنامک ایندھن کی موجودگی کی عکاسی ہوتی ہے؛ چنانچہ جب گرمی کی لہریں شدید ہو جاتی ہیں تو سمندر وں میںپانی کی سطح بلند ہونے لگتی ہے اور گلیشیرز کے پگھلنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔گزشتہ سال یہ سب اثرات نمایاں نظر آ رہے تھے۔ گرم موسم نے ایران، چین، یونان، سپین ٹیکساس اور جنوبی امریکہ کو جھلسا کر رکھ دیا تھا۔ ریکارڈکے مطابق کینیڈا میں جنگلات کو آگ لگنے کے واقعات کے لحاظ سے بھی یہ نمایاں ترین سال تھا اور اس کا 45 ملین ایکڑ رقبہ آتشزدگی کی نذر ہو گیا۔ انٹارکٹکا کے ساحلوں پر گرمی اور سردی‘ دونوں موسموں میں اس سال پہلے کے مقابلے میں کم برف جمی تھی۔ 

2015ء کے پیرس ایگریمنٹ کے مطابق اقوام عالم نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سیلسیس اور اگر ممکن ہوا تو 1.5 ڈگری سیلسیس سے کم رکھا جائے گا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری گرین ہائوس گیسز زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی بڑی وجہ بن رہی ہیں لیکن گزشتہ سال کئی دیگر قدرتی اور انسانی عوامل نے بھی اس اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 2022ء میںبحر الکاہل کے ایک جزیرے ٹونگا میں زیر سمندر پھوٹنے والے لاوے کی وجہ سے بننے والے آبی بخارات بھی فضا میں جمع ہو گئے تھے۔ بحری جہازوں سے نکلنے والی سلفر کی آلودگی بھی اس کی اہم وجہ ہے جو شمسی شعائوں کو منعکس کرتی ہے وگرنہ فضا میں پائے جانے والے بخارات زمین کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔

ایک اور اہم وجہ ایل نینو (ElNino) یعنی بحر الکاہل کے مرطوب علاقوں میں موسمیاتی پیٹرنز میں بڑی تبدیلی آنا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ سال شروع ہوا تھا اور یہ دنیا میں ریکارڈ قائم کرنے والی گرمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کی وارننگ ہے کہ آنے والا سال پہلے کے مقابلے میں بدترین ثابت ہو سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف میامی کی موسمیاتی سائنسدان ایمیلی بیکر کہتی ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حالیہ عشروں میں گرم ترین سال وہ ثابت ہوئے جو ایل نینو والے دور میں شروع ہوئے تھے۔ لیکن گزشتہ برس تو وسط سال تک ایل نینوکا آغا ز ہی نہیں ہوا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس غیر معمولی موقع پر پیدا ہونے والی گرمی کی بڑی وجہ ایل نینو نہیں ہے۔ یہ اس بات کی طرف بھی ایک اہم اشارہ ہے کہ یہ سال گزشتہ سال کے مقابلے میں مزید گرم ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر ایمیلی بیکر نے 2024ء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ نیا ریکارڈ قائم نہ بھی کرے تو تین گرم ترین سالوں میں سے ایک ضرور شمار ہوگا۔

موسمیاتی تبدیلیوں پر ریسرچ کرنے والے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی ایک سال کے دوران مثلاً 2023ء جیسا کوئی بھی غیر معمولی سال ہمیں یہ بات بتا سکتا ہے کہ ہمارے کرۂ ارض پر درجہ حرارت کے لحاظ سے کس طرح کی طویل مدتی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ لیکن دیگر کئی عوامل سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ہماری زمین ماضی کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتاری سے گرم ہو رہی ہے۔ گرین ہائوس گیسز سے پیدا ہونے والی انرجی کا نوے فیصد تک سمندروں میںجمع ہو جاتا ہے اور سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ 1990ء کی دہائی کے بعد سے سمندروں میں گرمی جذب ہونے کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ حال ہی میں فرانس کے ریسرچرز نے انکشاف کیا ہے سمندروں، زمین، فضا اور برف سمیت دنیا بھر میںہمارے کرۂ ارض پر پیدا ہونے والی گرمی میں اضافے کی رفتار میں 1960ء سے کہیں زیادہ تیزی آ رہی ہے۔ پچھلی چند دہائیوں سے اس تیز رفتاری، کاربن کے اخراج اور فضا میں آبی بخارات میں کمی میں ایک حیران کن مطابقت پائی جاتی ہے۔

 فرانس کے شہر ٹولوس میں واقع مرکیٹر اوشن انٹرنیشنل میں کام کرنے والی ایک اوشنو گرافر کرینہ وان شکمان کا کہنا ہے کہ ’’سائنس دان کو یہ سمجھنے کے لیے ڈیٹا کو مسلسل سٹڈی کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا دیگر عوامل بھی ہماری زمین کے درجہ حرارت میں اضافے پر اثر انداز ہو رہے ہیں یا نہیں؟ کچھ نہ کچھ غیر معمولی ضرور ہو رہا ہے لیکن فی الوقت ہم ان عوامل کو واضح طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں