چین: آبادی میں کمی کا سنگین مسئلہ
تحریر: زی شو وینگ
چینی کمیونسٹ پارٹی کو ایک قومی ایمرجنسی کا سامنا ہے جس کا حل یہ ہے کہ چینی خواتین زیادہ بچے پیدا کریں۔ اس مقصد کے لیے انہیں سستے گھر، ٹیکس میں چھوٹ اور نقد رقم کا لالچ دیا جا رہا ہے۔ حب الوطنی کے نام پر انہیں اچھی بیویاں ا ور مائیں بننے کی اپیل کی جا رہی ہے لیکن کوئی کامیابی نہیں مل رہی۔ خواتین شادی اور بچے پیدا کرنے سے گریز کر رہی ہیں چنانچہ 2023ء میں بھی چین کی آبادی میں کمی ہوئی ہے۔ عمر رسیدہ آبادی میں اضافے اور معاشی ناکامی سے حکومت میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ 2023ء میں بانوے لاکھ بچے پیدا ہوئے جبکہ 2022ء میں 95 لاکھ 60 ہزار بچے پیدا ہوئے تھے جبکہ اس سال ایک کروڑ دس لاکھ افراد فوت ہوئے ہیں۔ دنیا میں عمر رسیدہ افراد کی سب سے زیادہ تعداد چین میں ہے۔ 2023ء میں اس کی آبادی 20 لاکھ کم ہو گئی ہے۔ چین کو اپنی معیشت چلانے کے لیے افرادی قوت میں کمی کا سامنا ہے جبکہ ناقص ہیلتھ کیئر اور پنشن سسٹم کو مالیاتی دبائو کا بھی سامنا ہے۔
چین کو ایک بچہ پالیسی کی وجہ سے یہ مسئلہ درپیش ہے؛ چنانچہ چین میں خواتین کی آبادی بڑھ گئی ہے اور ملازمتوں میں بھی ان کا حصہ بڑھ گیا ہے۔ خواتین سمجھتی ہیں کہ حکومت بچے پیدا کرنے کے لیے اب انہیں دوبارہ گھروں میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ صدر شی جن پنگ پہلے ہی چینی خواتین کو اپنا روایتی کردار ادا کرنے کے لیے کہتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سرکاری حکام پر شادی اور بچوں کی پیدائش کا کلچر پرموٹ کرنے پر زور دیاہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تمام کوششیں چینی خواتین کے شادی اور والدین بننے کے حوالے سے نظریات تبدیل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ صنفی عدم توازن کے خاتمے کے قوانین بھی نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پروفیشنل راشیل چِن کا کہنا ہے کہ خواتین آج بھی چین میں بچوں کی پیدائش کے ضمن میں بے یقینی کا شکار ہیں۔ 33 سالہ راشیل کی شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں اور وہ کوئی بچہ نہیں پیدا کرنا چاہتی۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت بچے تو چاہتی ہے مگر انہیں جنم دینے والی مائوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ ریاستی پروپیگنڈا اور باہم میل جول کے مواقع فراہم کرنے کا مقصد نوجوانوں کو شادی اور بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ چین میں غیر شادہ شدہ جوڑوں میں بچے پیدا کرنے کا رجحان نہیں ہے۔ حکومت نوجوانوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ قوم کو نوجوان خون دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ والدین کو یہ پیغام تو مل گیا ہے مگر ان کی اکثریت شادی کے حوالے سے پہلے ہی روایتی نقطۂ نظر رکھتی ہے۔ راشیل چِن کے والدین اس کے بچے پیدا نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ سے کافی پریشان ہیں اور اکثر فون پر رونا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’اب ہمیں اپنے والدین مت سمجھنا‘‘۔
جنسی ہراسانی اور جائے ملازمت پر امتیازی سلوک کی وجہ سے چینی خواتین میں اپنے حقوق کے حوالے سے بہت آگہی پائی جاتی ہے۔ اتھارٹیز نے حقوقِ نسواں تحریک کو خاموش کرانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن ان کا مساوی حقوق اور سلوک کا نظریہ بہت مقبول ہے۔ چین میں نسوانی حقوق کی ایک علمبردار ژینگ چوران کہتی ہیں کہ ’’گزشتہ دس برسوں کے دوران انٹرنیٹ نے ایک نسوانی کمیونٹی کو پروان چڑھایا ہے۔ آج کی خواتین پہلے سے زیادہ بااختیار ہو چکی ہیں۔ کچھ عرصے سے نسوانی حقوق سے متعلق مکالمے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے؛ تاہم خواتین آن لائن اپنے تجربات شیئر کرتی ہیں اور متاثرہ خواتین کو سپورٹ کرتی ہیں‘‘۔
کتابوں کی حد تک صنفی مساوات سے متعلق قوانین کو پرموٹ کیا جاتا ہے۔ نسوانی حقوق کی ایک اور متحرک کارکن گائو ژنگ کہتی ہیں کہ روزگار کی فراہمی میں صنف، نسل کی بنیاد پر امتیاز برتنا غیر قانونی ہے۔ مگر عملی طور پر کمپنیاں ملازمت کے لیے صرف مرد امیدواروں کا اشتہار دیتی ہیں اور خواتین ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ کئی لحاظ سے خواتین زندگی کے ہر شعبے میں امتیازی سلوک کے حوالے سے زیادہ آگہی رکھتی ہیں۔ خواتین کے لیے تو عدالتوں تک سے انصاف حاصل کرنا مشکل ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایسے آرٹیکلز اور پوسٹس شیئر ہوئی ہیں جنہوں نے قوم کی توجہ ٹینگ شن صوبے کے ایک ریستوران میں خواتین پر ہونے والے وحشیانہ تشدد کی طر ف مبذول کرائی ہے۔ آٹھ بچوں کی ایک ماں کی کہانی بھی شیئر کی گئی ہے جسے زنجیروں میں جکڑ کر قید رکھا گیا تھا۔ جو خواتین شادی نہیں کرنا چاہتیں‘ وہ تشدد کی ایسی ہی کہانیوں کو جواز بنا کر پیش کرتی ہیں۔ قوانین اور پالیسیوں میں بھی کئی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں، مثال کے طور پر کسی بھی سول طلاق کے فائنل ہونے سے پہلے تیس دن کی ایک مدت مقرر کی گئی ہے جس میں جوڑے کو ایک بار پھر ٹھنڈے دل سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا موقع دیا جائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ نو برس میں شادیوں کے ناکام ہونے کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پہلے یہ رجحان صرف شہروں تک ہی محدود تھا مگر اب یہ سلسلہ دیہی علاقوں تک پھیل گیا ہے۔
خواتین میں شادی نہ کرنے کے رجحان کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اگر شادی نہ چلے تو خواتین کے لیے عدالت سے طلاق حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انڈیانا یونیورسٹی کے پروفیسر ایتھان مچلسن نے طلاق کے ڈیڑھ لاکھ کیسز کا تجزیہ کیا اور بتایا کہ خواتین کی طرف سے جتنے بھی مقدمات دائر کیے گئے تھے ان میں سے اسی فیصد درخواستوں کو پہلے مرحلے پر ہی جج نے مسترد کر دیا تھا حالانکہ گھریلو تشدد کے ٹھوس ثبوت موجود تھے۔ ستر فیصد کیسز کو دوسرے مرحلے میں مسترد کر دیا جاتا ہے۔ پروفیسر مچلسن کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کی اعلیٰ ترین شخصیات‘ جن میں صدر شی جن پنگ بھی شامل ہیں‘ کی طرف سے مسلسل یہ سگنلز دیے جاتے ہیں کہ چین کی سوسائٹی میں خاندان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جو سماجی استحکام اور قومی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکار کی طرف سے ملنے والے یہی سگنلز ججوں کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک آن لائن پوسٹ بہت مشہور ہو گئی ہے کہ ’’شادی کا لائسنس ملنے سے تشدد کا لائسنس بھی مل جاتا ہے‘‘۔ گزشتہ موسم گرما میں ایک ایسے ہی کیس میں شمال مغربی صوبے گینگ سو کی ایک عورت کی طلاق کی درخواست کو گھریلو تشدد کے ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود مسترد کر دیا گیا تھا۔ جج کا کہنا تھا کہ جوڑے کو اپنے بچوں کی خاطر اکٹھے رہنا چاہئے۔ سپریم پیپلز کورٹ نے بھی طلاق کیسز میں یہ فیصلہ دیا کہ طلاق کی صورت میں خاندان کا گھر اسے ملے گا جس کا نام ملکیتی دستاویز میں درج ہو گا اس کا عمومی فائدہ بھی مردوں کو ملتا ہے۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)