ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ٹرمپ کی امریکی نفسیات پر گرفت

تحریر: میٹ فلیگن ہائمر

کچھ ہی عرصہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت سے خوفزدہ لوگ قائل ہو گئے تھے کہ یہ شخص اپنے ہوش میں نہیں رہا۔ بظاہر وہ ایک جلاوطن لیڈر کی طرح فلوریڈا میں مقیم تھے۔ ان کے انتخابی جھوٹ ان کی ذاتی خودکلامیوں تک محدود تھے۔ اب وہ دائیںبازو کے طاقتور میڈیا فاکس نیوز پر بھی نہیں آتے تھے۔ ’’ٹروتھ سوشل‘‘ پر ان کی پوسٹس میں بھی پہلے والا اثر نہیں رہا تھا۔ گزشتہ چودہ مہینوں سے وہ اگلے صدارتی امیدوار ڈکلیئر ہو چکے ہیں۔ ان کے مخالفین ان کے بجائے آپس میں گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔ لیکن آئیووا میں ان کی لینڈ سلائیڈ فتح کے بعد لگ رہا ہے کہ ان کی اپنے ریپبلکن ووٹرز پر گرفت بڑی مضبوط ہے۔ اس سے دو نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی سیاست میں ایک طاقتور شخصیت کے طور پر واپس آ چکے ہیں اور وہ ایک بار پھر اپنے انتخابی اور قانونی ڈراموں کے ذریعے اس انتخابی سال کے دوران ہر جگہ نظر آئیں گے۔ وہ سیاسی منظر سے غائب ہی کب ہوئے تھے؟ وائٹ ہائوس میں اپنی مدت صدارت پوری کرنے کے بعد‘ جو ہر لمحے ہماری قومی نفسیات کو متاثر کرتی رہتی ہے‘ انہوںنے اپنے ہر ٹویٹ اور پوسٹ سے اپنے حامیوں کو متحرک اور اپنے ناقدین کو پریشان کیا جس کا آخری نتیجہ 6 جنوری 2021ء کو ان کے حامیوں کی طرف سے کیپٹل ہل پر حملے کی صور ت میں نکلا۔ ٹرمپ سے بیزار دونوں جماعتوں کے کئی لو گ انہیں سیاسی میدان سے باہر دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ٹرمپ صرف میڈیا کے ذریعے ہی پچھلے آٹھ برسوں سے سیاست میں زندہ ہیں۔ بعض کا خیال تھا کہ شاید وہ اگلے الیکشن میں حصہ ہی نہ لیں۔ شاید 2016ء میں ان کی کامیابی کے بعد الیکشن میں مسلسل ناکامیوں کی پاداش میں ریپبلکن پارٹی خود ہی انہیں باہر کی راہ دکھا دے‘ یوں کسی اور کے لیے میدان ہموار کر دے۔

لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے ہفتے نیو ہیمپ شائر میں ہونے والے پرائمری الیکشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تیسری بار ان کی صدارتی نامزدگی یقینی ہے۔ ان کے مخالفین کے پاس انہیں روکنے کا کوئی حربہ نہیں ہے۔ صدر براک اوباما کے اعلیٰ ترین مشیر ڈیوڈ ایکسلروڈ کہتے ہیں کہ ’’ان نفسیاتی جنونیوں سے ہٹ کر چند ایک ڈیمو کریٹس نے ہی 6 جنوری کی ہلڑ بازی کے بعد آپ کو بتایا ہو گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ 2024ء کے صدارتی الیکشن میں بھی ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ ایک بار پھر سے ان کے مظلومیت کے کارڈ اور اپنے بیس کیمپ پر مکمل گرفت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا سیاسی بیس کیمپ ساتھ رکھنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی۔ پچھلے پورے سال کے دوران انہوں نے صر ف اپنے خلاف لگنے والے 91 فوجداری الزامات کے بارے میں ہی بات کی ہے جس کے نتیجے میں ریپبلکنز کی ایک بڑی تعداد واپس ان کے کیمپ میں آ گئی ہے۔ 2016ء سے ہی ریپبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی دونوں کی رائے ایک ہی تھی کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ سیاسی میدان میں رہتے ہیں تو اس سے ڈیمو کریٹک پارٹی کو فائدہ ہو گا۔ 2020ء کے الیکشن میں ان کی ناکامی ان کے ہنگانہ خیز دورِ صدارت کے خلاف ایک ریفرنڈم ثابت ہوئی۔ 2022ء کے وسط مدتی الیکشن بھی ریپبلکن پارٹی کے لیے مایوس کن ثابت ہوئے تھے اس کی بڑی وجہ کانگرس میں ٹرمپ کے 6 جنوری اور اس کے آس پاس کے دور میں کنڈکٹ کے بارے میں ہونے والی سماعتیں تھیں۔ مسٹر ایکسلروڈ نے نوٹ کیا کہ پرائمری الیکشن کے سیزن کے بعد ٹرمپ کے مخالفین خاموشی سے ان کے اردگرد جمع ہو گئے ہیں اس لیے اب وہ صدر بائیڈن جیسے کمزور اور نرم خو حریف کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

ڈیمو کریٹس کو امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قانونی لڑائی ووٹرز کو ایک بار پھر اسی خلفشار کی یاددہانی کرائے گی جو اکثر ان کے ساتھ منسلک رہتا تھا۔ صدر بائیڈن ایسے سگنل دے رہے ہیں کہ ان کا ارادہ ہے کہ وہ 2020ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے الیکشن میں ہار کو جیت میں بدلنے کی ناکام کوشش کو اپنی انتخابی مہم کا ہدف بنائیں گے کہ انہوں نے کس طرح اپنے حامیوں کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے پر اکسایا تھا۔ تاہم یہ امر واضح نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار پر قابض رہنے کے لیے جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی کوششیں کی تھیں‘ اس حوالے سے فیڈرل الزامات کی سماعت‘ جو مارچ میں ہونے والی ہے‘ وہ الیکشن سے پہلے شروع بھی ہو سکے گی کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ ان الزامات کی صحت کو عدالت میں چیلنج کرنے والے ہیں۔

پولنگ اس سطح پر جا چکی ہے جس لیول پر آج کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکنز کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور 2020ء کے الیکشن میں شکست کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی کے حوالے سے سوچ کو تبدیل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں واشنگٹن میں پوسٹ یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سروے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ 2021ء میں جتنے ریپبلکنز ڈونلڈ ٹرمپ کو 6 جنوری کے ہنگاموں کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے‘ آج اس سے کہیں کم تعداد میں لوگ انہیں ان حملوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ دو تہائی سے زیادہ ریپبلکن ووٹرز کہتے ہیں کہ ’’اب آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے‘‘۔

ایک ریپبلکن سٹریٹجسٹ لائم ڈونووین کہتے ہیں کہ امریکی عوام کی اکثریت ٹرمپ کی قانونی مشکلات کو سمجھتی ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد یہ کہتی ہے کہ ان کو اگر سزا ملی تو ان کے ووٹرز کو بھی اس وقت اپنا کردار نبھانا ہو گا۔ الیکشن سے قبل کسی قسم کے مقدمے اور قانونی کارروائی کی عدم موجودگی میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ ایک ایسے ماحول میں محض آگاہی ہی کافی ہو گی جس میں ایک سابق امریکی صدر کے پولز اس کے تمام سابق انتخابات کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہیں‘‘۔

آئیووا سے ایک امیدوار کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو اکثر اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے تبدیلی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ کم از کم آئیووا میں انہوں نے کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا اور عدالت میں ان کی پیشیوں نے ان کی حقیقی سیاست کے حوالے سے ایک الگ تاثر قائم کر رکھا تھا؛ تاہم مسٹر ٹرمپ جو تھوڑا سا مذاق اڑائے جانے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں‘ کو سوموار کے روز پرائمری الیکشنز میں یہی سے جیت ملی ہے۔ انہیں وقت یاد آ رہا ہو گا جب آج سے آٹھ سال پہلے آئیووا سے الیکشن میں شکست کھا گئے تھے۔ اگر ماضی میں جھانکیں تو وہ کوئی ایسی چیز سمجھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں جس کو سمجھنے میں ان کے حریفوں نے کافی تاخیر کردی تھی۔ 2016ء میں ٹرمپ نے نیو ہیمپ شائر میں ایک تقریر کی جب انہیں وہاں کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’لوگوں کی اکثریت پچھلے کئی برسوں سے مجھ پر ہنستی ہے۔ اور اب میں اپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں اب وہ زیادہ مسکرا نہیں رہے‘ میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement