انسدادِ بدعنوانی، حقیقی عزم کی ضرورت
وزیر اعظم شہباز شریف نے کرپشن کو ملکی ترقی و خوشحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام سیاسی حلقوں کو مل کر کرپشن کی روک تھام کے لیے واضح روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے۔بلا شبہ بدعنوانی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے اور معاشی ‘ انتظامی اور سماجی زوال کا ایک بڑا سبب ہے۔ بدعنوانی اداروں کی کمزوری اورقوانین اور انصاف کے اصولوں کی پامالی کا سبب بنتی ہے جس سے ریاست کے شہریوں کا اپنے اداروں سے اعتماد کمزور پڑ جاتا ہے ۔اس طرح بدعنوانی کے سرطان سے پورا سماجی ڈھانچہ اور گورننس کا نظام شکستہ ہوجاتا ہے ۔ بدعنوانی ملکی سلامتی اور امن و امان کے لیے بھی بلا شبہ خطرات کا سبب بنتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو یہ مسئلہ ملک و قوم کے لیے سب سے بڑے مسائل کے طور پر نمایاں ہے؛چنانچہ انسداد بدعنوانی کو ریاستی سطح پر اولین ترجیح کے طور پر لیا جانا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے صورتحال کبھی تسلی بخش نہیں رہی ۔ زبانی حد تک بدعنوانی کے تدارک کے دعوے ہر دور میں بڑے شدو مد سے کئے گئے مگر یہ زبانی عزم عملی قالب میں نہ ڈھل سکا‘ نتیجتاًبدعنوانی کے حوالے سے ہمارا ریکارڈ تشویشناک رہا ہے۔ بدعنوانی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘‘کی رواں برس کے شروع میں 180 ممالک میں بدعنوانی کی صورتحال سے متعلق جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ممالک کی فہرست میں پاکستان 140 ویں درجے پر پہنچ چکا ہے ۔2020ء میں اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 124 تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا‘ انسداد بدعنوانی کے نعرے اور دعوے عملاً اپنا مقصد پورا نہیں کر سکے ‘ بلکہ اس کے برعکس نتیجہ برآمد ہوا۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسے سوالات تحمل اور افہام و تفہیم کے ماحول میں تو زیر بحث اور زیر غور آسکتے ہیں مگر ہمارے جیسے سیاسی گرما گرم ماحول میں ایسی چیزوں کو اہمیت دینے کا رواج نہیں۔مگر یہ رویہ قومی سطح پر ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سماج میں جرائم کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کمزور شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ ان کے حقوق بے دھڑک پامال کئے جاتے ہیں۔ شہریوں کو جو آئینی تحفظ حاصل ہے اس کی عدم فراہمی کی صورت میں کوئی جوابدہ نہیں بنتا۔ یہ صورتحال مجموعی طور پر قومی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ترقی کے لیے سماجی اطمینان اور شہریوں کے لیے احساسِ تحفظ ضروری ہے۔ جب بدعنوانی کا زور ہو گا تو نظام ریاست کا توازن اور گورننس برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہتا؛چنانچہ ضروری ہے کہ بدعنوانی کو ایک سیاسی نعرہ بنانے کے بجائے ایک سنجیدہ قومی مسئلہ مان کر چلیں اور انسداد بد عنوانی کے لیے ٹھوس اور پائیدار اقدامات کریں۔ ہمارے ہاں انسدادِ بدعنوانی کے عزم کو جس طرح سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اس رویے کو تبدیل کرنے اور بدعنوانی کے الزامات کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے اس مسئلے پر سنجیدگی اور ذمہ داری سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انسداد بدعنوانی اور رشوت ستانی کے قوانین موجود ہیں اور ادارے بھی ؛صرف ان وسائل اور قانونی انسٹرومنٹس کو شفاف انداز سے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔ یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب سیاستدان بدعنوانی کے الزامات کو سیاسی مفادات کی خاطر استعمال کرنے کا رویہ ترک کریں گے۔حکومتی اور ادارہ جاتی سطح پر جو اقدامات ناگزیر ہیں وہ اپنی جگہ پر مگر انسدادِ بدعنوانی کو سماجی سوچ اور رویے میں شامل کئے بغیر شاید صرف قوانین اور اداروں کی مدد سے اس مسئلے سے نمٹنا ممکن نہ ہو۔ مثالی معاشرے وہی ہیں جہاںبدعنوانی کو سماجی سطح پر ایک لعنت شمار کیا جاتا ہے ‘ یہی لاشعوری ترنیت سماجی سطح پر بدعنوانی کے لیے سب سے بڑی روک ثابت ہوتی ہے۔ہمارے سماج میں بھی فرد کی تربیت اسی نہج پر ہونی چاہیے کہ بدعنوانی اور رشوت ستانی کے لیے نفرت قوم کی گھٹی میں شامل ہو۔