عید الفطرکی خوشیاں مبارک!
اہلِ وطن کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک ہوں۔ آج کا پُر مسرت دن رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ کی تکمیل کا انعام ہے۔یہ دن گلے ملنے‘ دعائیں دینے اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے۔ خوشیوں بھرے تہوار سماجی زندگی کیلئے قوتِ متحرکہ ہوتے ہیں۔ یہ گلے شکوے‘ شکایتیں‘ نفرتیں ‘ تعصب ‘ کدورت اور عداوت کی آلودگی سے سماج کی تطہیر کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ عیدین کی بابرکت ساعتوں کا مقصد بھی یہی ہے اور اس کی سماجی قدرو منزلت اور ضرورت و اہمیت کیا ہے ہم اپنے حالات و واقعات میں اس کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ گوناں گوںانفرادی مسائل کے اثرات ہمارے سماج کی ساخت کیلئے بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ مہنگائی‘ بنیادی انسانی حقوق کی عدم فراہمی‘ انصاف کی راہ میں پے در پے رکاوٹیں اور آدمی کے جوہر کے پروان چڑھنے کی راہ میں قدم قدم پر مشکلات سماج میں تعصب‘ حسد‘ جرائم اوراحساسِ ہمدردی کے فقدان کا سبب بنتی ہیں۔ خوشیوں کے تہوار ایسی ناموافق صورتحال میں ایک نعمت ہیں؛چنانچہ عید الفطر کی خوشگوار ساعتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج ہمارے لیے کسی روٹھے ہوئے کو منانا ‘ کسی بھولے ہوئے کو یاد کرنا اور اپنی مثبت توانائی ماحول کی بہتری کیلئے صرف کرنے کا غیر معمولی موقع ہے۔ یوں تو یہ نیک کام سال کے کسی بھی دن انجام دینے میں کوئی ممانعت تھوڑی ہے مگر وہ جوقمر بدایونی نے کہا تھا کہ عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم/ رسم ِدنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ تو آج کا دن ہمارے لیے قدرتی طور پر ایک موقع پیدا کرتا ہے اور وہ کام جو سال کے دیگر ایام میں ادا کرنے میں ’’اَنا‘‘ حائل رہی‘ عید الفطر کا دن اس کیلئے قدرت کی جانب سے عطا کیا ہوا احسن موقع ہے۔اہلِ پاکستان یہ عید ایسے حالات میں منا رہے ہیں جب سیاسی طور پر ہمارا ملک ماضی سے کہیں زیادہ تلخیوں سے گھرا ہوا ہے۔ سیاسی پولرائزیشن نقطۂ عروج پر ہے‘ کلیدی سیاسی جماعتوں میں دست و گریباں تک کی نوبت آئی ہوئی ہے اور سیاسی ہٹ دھرمی کی شدت ناقابلِ بیان حد تک بڑھ چکی ہے۔ حالیہ دنوں عدالتِ عظمیٰ نے بھی سیاسی قائدین کو مکالمے کی تجویز دے کر دیکھ لیا مگرسیاسی تناؤ میں خاطر خواہ کمی نظر نہیں آتی ۔ اس قسم کے حالات میں ‘ جب ملک سیاسی بے چینی کی اس شدت سے دوچار ہو‘ سب سے زیادہ نقصان معیشت کا ہوتا ہے اور اس کے بعد قومی اعتبار کا۔ آج ہم ہر دو خطرات کی نہایت تشویشناک صورت سے نمٹ رہے ہیں۔ معاشی نموجو گزشتہ مالی سال چھ فیصد تھی‘ اس سال نصف فیصد تک رہ گئی ہے اور مہنگائی کا جو عالم ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ روپے کی قدر ایک سال پہلے کے مقابلے میں قریب 55فیصد گر چکی ہے۔ گزشتہ سال ان دنوں ایک ڈالر 186روپے کا تھا جو اس سال 284تک پہنچ چکا ہے۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی اسی حساب سے ہے۔ یہ حالات قدرتی طور پر سماجی مایوسی اور بے بسی کے احساسات کو جنم دیتے ہیں اورلوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کے حکمرانوں اور ملک کو چلانے والوں کو ان کی راحت سے کوئی سر و کار نہیں۔ یہ جذبات سماجی بے چینی کیلئے عمل انگیز کا کام کرتے ہیں اور انتشار کیلئے مہمیز ثابت ہوتے ہیں۔ عید الفطر کا دن ہمارے سیاسی رہنماؤں اور ریاست کے ذمہ داران کیلئے ایک تحریک ہے کہ اس بابرکت اور خوشیوں بھرے دن سے فائدہ اٹھائیں اور سیاسی ہٹ دھرمی کو ترک کرتے ہوئے قومی جذبے اور خیر خواہی کے ولولے کیساتھ ایک دوسرے کو گلے لگائیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی تجویز اس کام میں یقینی طور پر مددگار ثابت ہو سکتی ہے مگر سیاستدان پہلا قدم اٹھائیں تو۔ اگر آج بھی یہ رہنما ملک و قوم کے مفاد پر اپنے محدود سیاسی اور ذاتی مفاد اور اَنا ہی کو پالتے پوستے رہے تو ہماری قومی زندگی کیلئے اس کے نتائج خدا نخواستہ خطر ناک ہو سکتے ہیں۔