اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معاشی حالات کا سامنا کریں

وزیراعظم شہباز شریف نے اگلے روز کراچی میں کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ منہ چھپا کر کہاں جاؤں۔ اپنے اس خطاب میں وزیر اعظم نے عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں‘ ملک عزیز میں گزشتہ برس کے سیلابوں اور جب یہ اتحادی حکومت قائم ہوئی اُس وقت کے معاشی حالات کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم کے یہ الفاظ ان کی تشویش کی واضح عکاسی کرتے ہیں مگر مہنگائی کے مارے عوام کو وزیر اعظم سے صرف دلاسا درکار نہیں‘ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی مشکلات کا کوئی چارہ کرے۔ یہ کام عوام کے غم میں شراکت داری سے زیادہ اہم ہے۔ مگر ایک سال سے قائم حکومت کی معاشی کارکردگی ناکامی کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ رواں مالی سال کے معاشی اشاریوں کا گزشتہ سال سے تقابلی جائزہ تشویشناک حالات کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ حال ہی میں نیشنل اکائونٹس کمیٹی کی جانب سے رواں مالی سال کے معاشی اہداف اور کارکردگی کے گوشوارے جاری کیے گئے ہیں جو یہ دکھاتے ہیں کہ افراط ِزر کے سوا معیشت کے کسی اشاریے میں اضافہ نہیں ہوا۔حکومت اس صورتحال کا جواز کبھی عالمی حالات میں تلاش کرتی ہے اور کبھی گزشتہ برس کے سیلاب میں۔ یقیناان کے اثرات کو رد نہیں کیا جاسکتا مگر معاشی ترقی کی شرح جو ایک سال میں چھ فیصد سے کم ہو کر 0.3 فیصد تک اور افراط زر قریب بیس فیصد سے بڑھ کر36.4 فیصد تک کیسے ہوئی؟حکومت اگر ان معاملات پر توجہ دے تو مہنگائی یقینا اس خوفناک سطح تک نہ پہنچ جائے کہ ہمارے وزیر اعظم کیلئے منہ چھپانے کی نوبت آئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ معاشی حقیقتیں ایسی کٹھور ہیں کہ نظر چرانے یا منہ چھپانے سے تبدیل نہیں ہوتیں۔ ان کی تبدیلی حالات کی تبدیلی سے مشروط ہوتی ہے‘ جس کیلئے حکومت کی کل وقتی دلچسپی اور سنجیدگی درکار ہے۔ کیا ان حالات میں ایسا کچھ دکھائی دیتا ہے؟ اس کا جواب گزشتہ اور رواں مالی سال کے معاشی اعدادوشمار ہی میں موجود ہے۔ اب جبکہ مالی سال 2024ء کے بجٹ میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے حکومت کو آنے والے سال کے معاشی حالات کی فکری کرنی چاہیے جو خسارے سے بھر پور‘ ملکی تاریخ کی بلند ترین شرحِ افراطِ زر اور کم ترین معاشی نمو کی بنیاد پر شروع ہونے جا رہا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے اور ماہرینِ معیشت اگرچہ آنے والے سال کیلئے بھی کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے اور یہ پیشگوئی کی جاتی ہے کہ آئندہ برس میں نمو کی شرح دو فیصد تک پہنچ پائے گی جو پاکستان کو بدستور اس خطے میںکم ترین شرحِ نمو والے ممالک کی صف میں کھڑا رکھے گی۔ کم ترین شرحِ نمو کو آبادی کے حجم کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے۔ آج قریب پچیس کروڑ آبادی (حال ہی میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے اعداووشمار کے مطابق 24کروڑ 95 لاکھ 66ہزار کے قریب ) کے ساتھ ہم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہیں مگر جی ڈی پی کے لحاظ سے بیالیسویں نمبر پر۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے ہم پلہ یا اوپر کے ممالک جی ڈی پی کے لحاظ سے کہیں بلند سطح پر ہیں۔ مثال کے طور پر آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر آنے والا برازیل جی ڈی پی کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ہے‘آبادی میں چوتھے نمبر پر آنے والا انڈونیشیا جی ڈی پی میں سولہویں جبکہ تیسرے‘ دوسرے اور پہلے نمبر پر آنے والے امریکہ‘ بھارت اور چین جی ڈی پی میں پانچویں‘ دوسرے اور پہلے نمبر پر ہیں۔ اس چونکا دینے والی تفصیل سے یہ نظر آتا ہے کہ آبادی میں دنیا کی بلند ترین پوزیشن اور معیشت میں متوسط سے بھی نچلے درجے میں رہ کر ہم ایک ایسی صورتحال کو تخلیق کر رہے ہیں جس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر معاشی استحکام اور اطمینان کا تصور محال نظر آتا ہے۔ مگر اس صورتحال کا حل وہ نہیں جوہمارے وزیر اعظم بیان کررہے ہیں‘ منہ چھپانے سے نہیں ان مشکلات کا سامنا کرنے سے بات بنے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement