اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

نگران وزیر اعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے تمام ممالک سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ۔ نگران وزیراعظم کے بقول‘ ان میں بھارت بھی شامل ہے ‘ مگر دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات کیلئے مسئلہ کشمیر کو حل ہونا ضروری ہے۔نگران وزیر اعظم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور استصوابِ رائے کے نکات کو بھی بہتر انداز سے اٹھایا ۔جنوبی ایشیا کے اس سب سے بڑے اور دیرینہ علاقائی تنازع کے سلسلے میں اقوام عالم کی یاددادشت تازہ کرنے کا یہ اچھا انداز تھا۔اپنے خطاب میں نگران وزیراعظم نے پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کی بات بھی کی۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور پاکستا ن کو لاحق خطرات کی جانب عالمی توجہ دلانے کیلئے بھی اقوام عالم کا یہ فورم بہت اہم تھا؛ چنانچہ نگران وزیر اعظم نے ماحولیاتی مسائل اور انکے اثرات کا جس طرح احاطہ کیا ملکی مشکلات کو دنیا پر واضح کرنے کیلئے یہ ضروری تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں سر فہرست ہے‘ تاہم اس سلسلے میں اقوام عالم کی جو ذمہ داریاں بنتی ہیں وہ پوری نہیں کی جا رہیں۔ 2022ء کے تباہ کن سیلاب ماحولیاتی آفات کی ایک مثال ہیں مگر پاکستان کو ان سے جو کم از کم30 ارب ڈالرکے نقصانات اٹھانا پڑے ان کا ازالہ کرنے کیلئے مناسب اور ضروری امداد فراہم نہیں کی گئی اور سیلاب زدہ علاقوں میں تباہی کی اثرات ابھی تک باقی ہیں۔نگران وزیراعظم نے افغانستان میں امن و استحکام کو پاکستان سمیت اس خطے کے امن و استحکام کیلئے ناگزیر قرار دیا اور اقوام عالم سے افغانستان کی امداد جاری رکھنے کیلئے اپیل کی۔ نگران وزیراعظم کے یہ الفاظ افغانستان کی تعمیر و ترقی اور استحکام کیلئے پاکستان کے مخلص جذبے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ افغان بھی اس جذبے کی قدر کریں اور یہ مان کر چلیں کہ ان کا ہمسایہ اُن کی جانب سے سکیورٹی کے شدید خدشات کے باوجود ان کے امن و ترقی کی کس قدر تمنا رکھتا ہے۔ اگر افغان بھی اس جذبے کو اپنا لیں تو پاکستان اور افغانستان کی ترقی اور دہشت گردی کے خطرات کے خاتمے سے دنیا کے اس حصے میں عوامی تعلقات ‘ کاروبار اور معاشی روابط میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے جس کے ثمرات افغانستان کے اُس جانب وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ وسط ایشیا اور ادھر چین سے لے کر پاکستان ‘ ایران اور خلیجی عرب ممالک اور ترکیہ تک کا یہ وسیع و عریض خطہ اگر باہمی اعتماد اور امن کی یقین دہانی کی بنیاد پر مل کر ترقی کرے تو یہ ایک ایسا ہمہ گیر معاشی انقلاب ہو سکتا ہے جس کی نظیر اس سے پہلے دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس خواب کی تعبیر میں فی الوقت افغانستان کے داخلی حالات بڑی رکاوٹ ہیں‘ جن کی اصلاح کی کوشش کی جائے تو ترقی اور خوشحالی کے وسیع مواقع کھل سکتے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے اسلاموفوبیا کی وجہ سے مغربی ممالک میں مسلمانوں کیلئے پیدا ہونے والے خطرات کا نکتہ بھی اٹھایا اور ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے دنیا کو مل کر کام کرنے کی تجویز دی۔ تقاریر کی حد تک دیکھا جائے تو پاکستان کے وزرائے اعظم یا صدور نے جنرل اسمبلی سے بہت پُر مغز خطاب کئے مگر سوال صرف بولنے والے کے الفاظ اور انداز کا نہیں یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ اس کے اثرات کیا ہیں۔ اس کا اندازہ اُن مسائل کے باب میں عالمی ردعمل اور اقدام سے لگایا جاسکتا ہے جو پاکستان کی جانب سے ہرسال اس اہم ترین عالمی فورم پر اٹھائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے مسئلہ کشمیر کو دیکھ لینا چاہئے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ اصولی موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان امن کی بنیاد ہے‘ اور یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فورم پر سب سے پرانے تنازعات میں سے ایک ہے ‘ مگر اس معاملے میں عملی پیش رفت کوئی نہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں