سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں کثرتِ رائے سے مسترد کرتے ہوئے مذکورہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کو برقرار رکھا ہے جس کی رُو سے عدالتِ عظمیٰ میں مقدمات کی سماعت کیلئے ججز کے بینچ کا تقرر چیف جسٹس آف پاکستان دو سینئر ترین ججز کی مشاورت سے کریں گے۔اس میں از خود نوٹس کے کیسز بھی شامل ہیں جنہیں مذکورہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا اور کمیٹی ان معاملات کی سماعت کیلئے کم از کم تین رکنی بینچ تشکیل دے گی۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت از خود نوٹس کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔ اپیل 30 دن کے اندر سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی اور اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کیلئے مقرر کیا جائے گا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو سپریم کورٹ کے کام کرنے کے طریقہ کار میں اہم اصلاح قرار دیا جا رہا ہے۔ سابق پارلیمان نے جب اس قانون کی منظوری دی اُسی وقت سے قانون دان حلقے اس قانون کی اہمیت اور اس کے دور رس مثبت اثرات کی تعریف کر رہے تھے؛ تاہم بعض فریقوں کی جانب سے آئینی درخواستیں دائر کیے جانے کے بعد سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ نے وسط اپریل میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نفاذ کے خلاف امتناعی حکم جاری کر دیا تھا‘ تاہم جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان ذمہ داریاںسنبھالنے کے بعد اسی مقدمے کی سماعت سے اپنے دور کا آغاز کیا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے مذکورہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں بتائے گئے مشاورتی طریقہ کار کے مطابق فُل کورٹ بینچ تشکیل دیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی مقدمے کی سماعت سپریم کورٹ سے براہ راست نشر کی گئی۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا مطمح نظر عدالتی نظام کی اصلاح اور عدالت میں دانشِ اجتماعی کی فوقیت کو رواج دینے کے سوا کچھ نہیں۔ اس مقدمے کی پانچ سماعتوں کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے جس وسعتِ نظر اور کھلے دل کے ساتھ ان اصلاحاتی اقدامات کی حمایت کی اور اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان کے اختیارات کی حد بندی‘ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تقدم اور اداروں میں اعتماد اور خیر اندیشی کی اہمیت کو واضح کیا یہ ریاستی اداروں کے استحکام کیلئے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ الفاظ ملک کے جمہوری نظام کی مضبوطی اور اداروں میں بے جا شبہات کی ذہنیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی مؤثر تحریک ثابت ہوں گے۔ ریاست کے سبھی اداروں کی اپنی جگہ اہمیت ہے‘ مسائل اُس وقت جنم لیتے ہیں جب کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے وظائف کو مسترد کرتا ہے۔ ریاست میں قانون سازی کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے اور اسے اس بنیادی اختیار سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمنٹ کے اس عمل پر بے جا شک و شبہ اور نیت کی چھان پھٹک بھی کوئی اچھا رویہ نہیں۔ اس سلسلے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس یاد رکھے جانے کے لائق ہیں۔ کیس کی آخری سماعت کے دوران گزشتہ روز چیف جسٹس کا یہ کہنا بے حد اہمیت رکھتا ہے کہ اداروں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ پارلیمان اور سپریم کورٹ ایک دوسرے کی دشمن نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اداروں میں باہمی اعتماد ہی اداروں کی مضبوطی اور ملک کے استحکام کا سبب بن سکتا ہے؛چنانچہ لازم ہے کہ ہم اس اہم مقدمے میں عدالتی تشریحات اور ریمارکس کو بھول نہ جائیں اور ان سے قومی نظام کی اصلاح کیلئے فائدہ اٹھائیں۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حق میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا اکثریتی فیصلہ نظام عدل میں بذاتِ خود بڑی اصلاح ہے اور مزید اصلاح کیلئے یہ فیصلہ رجحان ساز ثابت ہو گا۔