اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش

حکمران اتحادی جماعتوں کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش سیاسی حبس کی فضا میں خوشگوار جھونکے کی مانند ہے۔ گزشتہ روز ایوانِ بالا کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ اگر پی ٹی آئی اپوزیشن کی دیگر نظریاتی مخالف جماعتوں سے ہاتھ ملا سکتی ہے تو حکومت کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھ سکتی؟ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے اپوزیشن رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے رویے میں نرمی لائیں اور پارلیمان و جمہوریت کی توقیر کے لیے ایوان میں مل کر کام کریں۔ مذاکرات کی حکومتی پیشکش کے جواب میں پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ملک کیلئے کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں لیکن پہلے مذاکرات کیلئے ماحول بنایا جائے‘ سیاسی مقدمات ختم کیے جائیں۔ اتحادی حکومت کی دو مرکزی جماعتوں کی جانب سے اپوزیشن کو سیاسی تنائو میں کمی کے لیے مذاکرات کی جو دعوت دی گئی ہے‘ وہ گزشتہ دنوں تاجروں کی جانب سے معاشی استحکام کے لیے دی جانے والی تجویز کا تسلسل ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی تاجروں سے ملاقات کے دوران تاجروں کی جانب سے بھی اپوزیشن سے بات چیت کی تجویز دی گئی تھی۔ اب حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے تو یہ بھی خیال رکھنا ہو گا کہ بات چیت کی اس دعوت کو ’’اتمامِ حجت‘‘ کے بجائے قومی مسائل کے حل کی مثبت سعی کے طور پر لیا جائے اور مسلسل جاری رکھا جائے۔ مذاکرات کے عمل میں سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی ہی سے یہ ظاہر ہو گا کہ قومی مسائل کے حل کیلئے سیاسی حلقوں کی آمادگی کا کیا عالم ہے ۔ سبھی حلقے چاہتے ہیں کہ سیاسی حدت میں کمی آنی چاہیے اور معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب نہیں بڑھنا چاہیے مگر دیکھنا یہ ہے کہ درپیش مسائل کے حل کیلئے سیاسی قیادت مزید کیا اقدام کرتی ہے۔ افہام و تفہیم سے معاملات طے کرنے کی اہمیت سے سبھی واقف ہیں؛ تاہم معاملات اگر سیاست اور ملکی نظام سے متعلق ہوں تو افہام و تفہیم کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے‘ اس لیے وقت ضائع کیے بغیر مذاکرات کے عمل کی جانب بڑھنا چاہیے اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہنا چاہیے جب تک کوئی مثبت پیشرفت سامنے نہ آ جائے۔ اس سلسلے میں لچک دکھانے کا جذبہ اور خلوص ناگزیر ہے‘ کہ ملکی مسائل حل کرنے کے لیے ہمیں متحد اور یکسو ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب یہ بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ اگر سیاسی جماعتیں اس تنائو اور حدت میں کمی نہ لا سکیں تو یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا؟ یہ بات مسلمہ ہے کہ سیاسی قیادت اگر مل بیٹھ کر آپس کے معاملات طے نہ کر پائی تو سماجی انتشار اور معاشی انحطاط میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ سیاسی مسائل صرف سیاسی جماعتوں ہی کے مسائل نہیں ہوتے بلکہ ملک کا جمہوری نظام اور کاروبارِ حیات کے معاملات بھی ان مسائل سے مربوط ہوتے ہیں اور ان کے اثرات ہر شعبۂ زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے باہمی رابطے کے فقدان نے معاشرے میں جو تلخی گھولی ہے اس کے منفی اثرات ملکی حالات و واقعات سے عیاں ہیں۔ اس صورتحال نے مجموعی قومی نفسیات اور سماجیات کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ اس میں دو آرا نہیں کہ عوام اس وقت خوفناک مہنگائی کے علاوہ سیاسی انتشار کی چکی میں بھی پس رہے ہیں لہٰذا پورے سماج کی بہتری اسی میں ہے کہ سیاسی جماعتوں میں تنائو کم ہو اور افہام و تفہیم کی کوئی راہ نکلے۔ اربابِ حکومت پر اس کی ذمہ داری اس لیے زیادہ عائد ہوتی ہے کہ ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کی ذمہ داری حکومت پر ہے لہٰذا یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری‘ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ اور ملکی ساکھ میں بہتری لانے کیلئے ناگزیر ہے کہ سماجی انتشار پر قابو پایا جائے اور اس کیلئے سیاسی حدت میں کمی لانا ہو گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement