رہنے کی یہ کوئی جگہ ہے‘ خواہ مخواہ کا کھلواڑ اس کا کیا ہوا ہے۔ اچھا بھلا ملک ہوا کرتا تھا لیکن ہماری اجتماعی نالائقی کے سامنے کہاں کھڑا ہو سکتا تھا۔ یہ نہیں کہ معاشی اور سیاسی مسائل ہیں‘ مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن ہم نے جو اس ملک کا ماحول خراب کیا ہوا ہے‘ سب سے بڑی دشواری تو ہمارے سامنے یہی ہے۔ دنیا میں غریب ممالک کی کوئی کمی نہیں لیکن وہاں کے لوگ پھر بھی ہنستے کھیلتے ہیں۔ یہاں زندگی اتنی مشکل نہیں جتنی کہ بنا دی گئی ہے۔ خواہ مخواہ کے پرابلم ہم نے اپنے لیے کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ پارسائی کا بخار ہمارے ذہنوں سے اُترتا نہیں۔ ہمارے وجود میں یا ہمارے اعمال میں پارسائی کا دور دور سے شائبہ نہیں ملتا لیکن ایک حلیہ ہے پارسائی کا جو بحیثیت قوم ہم نے اپنے اوپر اوڑھا ہوا ہے۔ اس سے چھٹکارا مل جائے تو کم از کم ہمارے ذہن آزاد ہو جائیں‘ لیکن یہ خواہش بس خواہش ہی رہے گی۔ منافقت کی راہوں پر بڑی دیدہ دلیری سے ہم نے چلتے رہنا ہے۔
بیماریاں ہمارے معاشرے کو بہت لاحق ہیں‘ کچھ تو پیچیدہ ہیں لیکن کچھ سطحی قسم کی ہیں اور اُن سے بھی ہم چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہے۔ ان سطحی بیماریوں کا چلیں ذکر کر لیتے ہیں۔ یہ معاشرہ تھانیداری اور تھانہ کلچرکا مارا ہے اور تھانوں میں جو گھٹیا قسم کی کارروائیاں ہوتی ہیں اُن کا سدباب چھہتر سالوں میں ہم نہیں ڈھونڈ سکے۔ تھانے ہم سے ٹھیک نہ ہوں تو کون سی خلا میں ہم نے فتوحات حاصل کرنی ہیں۔ سوچئے تو سہی کہ ملک کے طول و عرض میں کسی تھانے میں بھی پرچہ نہیں درج ہو سکتا بغیر لالچ یا کسی بڑے کی سفارش کے۔ اور کسی صحیح جرم کے بارے میں بھی پرچہ درج کرانا ہو تو یہاں کا ماحول ایسا ہے کہ پرچے کو جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
باقی ملک کو چھوڑیے‘ اسلام آباد کے تھانے ہی لے لیجئے۔ یہاں کے ایک دو تھانوں میں مَیں نے راتیں گزاری ہیں۔ 1981ء میں آبپارہ تھانے کا ٹائلٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ منظرکبھی نہیں بھولے گا۔ جن تھانوں میں ٹائلٹ کی صحیح سہولت نہ ہو اُن کے عملے کا رویہ لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا؟ کچھ عرصہ پہلے شہزاد ٹاؤن تھانے میں دو تین راتیں گزارنی پڑیں۔ میں تو ایس ایچ او کے کمرے کے ساتھ ملحقہ باتھ روم استعمال کرتا تھا لہٰذا میرا گزارہ تو ہو گیا لیکن اُن تین دنوں میں مَیں سوچتا رہا کہ ہمارے حالات کیسے ہیں کہ تھانے تو بن جاتے ہیں لیکن جو اُن میں سہولتیں ہونی چاہئیں‘ وہ دینے سے ہم قاصر ہیں۔ پولیس افسران کو ان چیزوں پر دھیان دینا چاہیے۔ پی ایس پی افسران اپنے لیے عیاشی والی سہولیات کی توقع رکھتے ہیں لیکن ماتحت عملے کی طرف بھی کچھ دیکھ لیا کریں۔ شہزاد ٹاؤن تھانے میں مجھے خیال آیا کہ تفتیشی افسروں کے کمروں کے ساتھ باتھ روم کی سہولت ہونی چاہیے۔ ٹین کے ٹرنک چارپائیوں کے نیچے گھسائے ہوتے ہیں۔ کھانے کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں۔ جب میں وہاں تھا تو ایک دوپہر ہمارا ایک دوست کسی اچھے ہوٹل سے مٹن کڑاہی وغیرہ کا اہتمام کرکے لے آیا۔ ایس ایچ او نے دیکھا تو کہا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں‘ میڈیا والوں کو پتا چل گیا تو کہانیاں وائرل ہوں گی کہ ملزم ہے تو اندر عیاشی کر رہا ہے۔ کڑاہی اور دیگر چیزیں ہم نے میز پر رکھ دیں۔ پانچ دس منٹ کسی د وسرے کمرے میں گئے اور واپس لوٹے تو دیکھا کہ کڑاہی کا صفایا ہو گیا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ کہ پولیس محکمے کا ماحول اور کلچر ایسا بن گیا ہے کہ لگتا ہے کہ پورا محکمہ بس جھپٹا جھپٹی پر لگا ہوا ہے۔ سائل تھانے میں داخل ہوتا ہے تو آنکھوں سے اوپر سے نیچے جائزہ لیا جاتا ہے کہ کس قسم کی اسامی ہے‘ یعنی پیسے والا ہے یا جیب سے خالی۔ خالی جیب کی شنوائی اس نظام میں ناممکن ہے۔ حال دہائی آپ کرتے رہیں‘ جب تک جیب سے کچھ نکالیں نہیں تو شیر جوانوں کا محکمہ حرکت میں نہیں آئے گا۔ نوٹ نکالیں تو آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے اور پھر بیشک ناجائز کام بھی کروا لیں۔ اور اکثر ہوتا بھی یہی ہے کہ نوٹوں کے بل بوتے پر غلط کام ہی ہوتے ہیں۔ وہ کیا مشہور گانا ہے 'مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘ یہ پولیس کے محکمے پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔
پولیس کوہی موردِ الزام کیوں ٹھہرائیں‘ مملکتِ خداداد میں ہر محکمے کا یہی حال ہے۔ تھانوں کے ساتھ ساتھ یہ معاشرہ پٹوار خانوں کا مارا ہے۔ پٹواری حضرات‘ اللہ ان کا اقبال مزید بلند کرے‘ بھی نوٹوں کے فلسفے پر چلتے ہیں۔ محکمہ مال کا کوئی کام بغیر پیسوں کے نہیں ہو سکتا۔ محکمہ مال بھی کیا کرے‘ تمام ضلعی انتظامیہ محکمہ مال کے خرچوں پر چلتی ہے۔ کوئی خرچہ کرنا ہو وہ پٹواریوں کے ذمے پڑتا ہے اور پٹواری حضرات مع سود سارا خرچہ عام لوگوں سے پورا کرتے ہیں۔ یعنی سارا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ ملک کو معرضِ وجود میں آئے عرصہ بیت چکا ہے لیکن نہ تھانے ٹھیک ہوئے نہ پٹوار خانے‘ نہ کوئی اور محکمہ۔ واپڈا یا بجلی والوں کو دیکھ لیجئے‘ اس محکمے میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا جب تک لائن مین یا اُس سے اوپر کسی ہرکارے کو کچھ کھلایا نہ جائے۔
کس کس چیز کو رویا جائے۔ آج کل فیشن بن چکا ہے کہ ہر آنے والا حکمران کہتا ہے کہ پلاسٹک شاپروں کو ختم کریں گے۔ میں نے سمجھا تھا کہ اور کوئی یہ نیک کام کرے یا نہ کرے عمران خان کی حکومت ضرور کرے گی‘ لیکن اس لحاظ سے وہ بھی زبانی جمع خرچ کرتے رہے اور پلاسٹک شاپروں کی لعنت بدستور اس ملک میں پھیلتی جا رہی ہے۔ اور کسی چیز نے اس ملک کو کیا تباہ کرنا ہے‘ آدھے ملک کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے تباہ کر دیا ہے اور پورے ملک کو پلاسٹک شاپروں نے غلاظت کے ڈھیروں سے بھر دیا ہے۔ لیکن ہمارے پارسائی کے وِرد ختم نہیں ہوتے‘ جس کے منہ کے آگے لاؤڈ سپیکر آ جائے یا تو نعرے لگانے لگتا ہے یا پارسائی کی نصیحتیں کرتا ہے۔
ایک اور بیماری کے پھیلاؤ کو دیکھ لیں‘ جتنا پیسہ اس قوم نے شادی ہالوں پر برباد کیا ہے وہ ڈیموں کے بنانے میں لگتا تو ہمارا بجلی کا مسئلہ حل ہو جاتا۔ لیکن نہیں ‘ یہاں تو لگتا ہے کہ اس قوم کی ایک ہی مصروفیت ہے‘ شادیوں پر پیسے برباد کرنا۔ اور جو پیسے ہم اس فضول کی کارروائی میں صرف کرتے ہیں اُسے دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اور عذر کیا پیش کیا جاتا ہے؟ عزت کا سوال ہے‘ خوشی کا موقع ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ کچھ سال پہلے میری بیٹی رابعہ کی شادی ہوئی۔ میں نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ فضول کی تقریبات پر پیسہ برباد مت کرنا‘ سونا کچھ زیادہ لے لو آگے کام آئے گا۔ اُس نے ضد کی کہ شادی کا ڈریس تو وہی لینا ہے جس کی قیمت تب چھ لاکھ تھی۔ ایک یا دو گھنٹے وہ ڈریس استعمال ہوا ہو گا‘ اب کسی صندوق کی زینت ہو گا۔ شادی کے کچھ عرصے بعد اُس نے کچھ پیسے مانگے‘ میں نے کہا: بیٹا وہ جو تمہارے بیڈروم کی کھڑکی ہے اُس پر کھڑے ہوکر اُس شادی کے جوڑے کو خوب ہلانا اور اُس سے پیسے گر آئیں گے اور وہ استعمال کر لینا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ جس ملک کو ہم اسلامی کہتے ہیں اُس کے رویوں میں اتنا بگاڑ آ چکا ہے کہ عقل یا دلیل کی بات تو اب رہی نہیں۔
1974-75ء کا ماسکو اس لیے یاد آتا ہے کہ اُس نیم کمیونسٹ دیس میں زندگی نسبتاً سادہ تھی۔ لوگوں کی آمدنی محدود لیکن تعلیم اور صحت مفت اور پبلک ٹرانسپورٹ نہایت ہی عمدہ۔ لوگوں کا رہن سہن بھی سادہ سا تھا۔ کاش ہمارے ہاں ایسے حالات پیدا ہو سکیں۔ ہم ایک مغربی ترقی یافتہ ملک نہیں‘ ہماری مجموعی آمدنی وہ نہیں۔ پھر اپنی طرزِ زندگی اُن معاشروں پر ماڈل کرنے کی کوشش میں کیوں لگے رہتے ہیں؟ ایسے سوال ہی دل کو کھائے جاتے ہیں۔