دنیا کا ہر شخص آسودہ اور پُرسکون زندگی گزارنے کا خواہشمند ہے لیکن اس کے باوجود وقفے وقفے سے ہر شخص کو چھوٹی بڑی پریشانیوں اور مصائب کا سامنا رہتا ہے۔ جب انسان مصیبت اور پریشانی کی زد میں آتا ہے تو اپنی توانائیوں‘ وسائل اور وقت کوبروئے کار لاتا ہے تاکہ اس مصیبت سے نجات حاصل کر لی جائے ۔کئی لوگ اپنی صلاحیتوں اور وسائل کاا ستعمال کرتے ہوئے ان مصیبتوں سے نکل جاتے ہیں لیکن اکثر لوگ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود مصیبت و مشکلات سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اس حوالے سے کتاب و سنت نے بڑی بیش قیمت رہنمائی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ التغابن کی آیت نمبر 11 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور نہیں پہنچتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے حکم سے اور جو ایمان لے آتا ہے اللہ پر‘ ہدایت بخشتا ہے اللہ اس کے دل کو اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے‘‘۔
کتاب و سنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں پر آنے والی مصیبتوں کے بنیادی طور پر دو اسباب ہیں۔ یہ مصیبتیں یا تو بطور آزمائش آتی ہیں یا پھر انسان کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آزمائشوں کے حوالے سے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 155 میں ارشاد فرماتے ہیں۔ ''اور ضرور آزمائیں گے ہم تم کو کسی قدر خوف اور بھوک سے اور (مبتلا کر کے) نقصان میں مال و جان کے اور پھلوں (فصلوں) کے‘‘۔ گناہوں کی وجہ سے آنے والی مصیبتوں کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الشوری کی آیت نمبر 30 میں ارشادفرماتے ہیں ''اور جو پہنچتی ہے تمہیں کوئی مصیبت سو وہ کمائی ہوتی ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی اور معاف فرما دیتا ہے اللہ تعالیٰ بہت سے قصوروں کو‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النحل میں ایک بستی کا ذکر کیا جنہیں اللہ نے بہت سی نعمتوں سے نواز رکھا تھا لیکن کفرانِ نعمت کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان نعمتوں کو چھین لیا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النحل کی آیت نمبر 112 میں فرماتے ہیں ''اور دیتا ہے اللہ تعالیٰ مثال ایک بستی کی جو تھی امن اور اطمینان والی‘ پہنچتا تھا رزق انہیں بافراغت ہر جگہ سے‘ پھر ناشکری کی ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کی‘ تو چکھایا اللہ نے مزہ بھوک اور خوف کا بسبب ان کے کرتوتوں کے جو وہ کرتے تھے‘‘۔
مصیبتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انسان کو بعض اہم تدابیر کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے‘ جو درج ذیل ہیں:
صبر۔ جب کوئی انسان مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اسے صبر سے کام لینا چاہیے۔ جو بندہ صبر سے کام لیتا ہے اللہ کی معیت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 153 میں فرماتے ہیں ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے‘ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ سورۃ البقرہ ہی میں مختلف طرح کی آزمائشوں پر صبر کرنے والوں کو بشارت دی گئی ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیات 155 تا 156 میں فرماتے ہیں: ''اور خوشخبری دو صبر کرنے والوں کو۔ (صبر کرنے والے وہ) لوگ (کہ) جب پہنچتی ہے کوئی مصیبت انہیں تو وہ کہتے ہیں: بیشک ہم اللہ کے (لیے) ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔
دعا۔ اللہ تعالیٰ سے جب انسان دعا کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی دعائوں کو سنتے ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 186 میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ''اور جب پوچھیں تم سے (اے محمدﷺ) میرے بندے میرے بارے میں‘ تو بیشک میں تو قریب ہی ہوں۔ جواب دیتا ہوں میں پکارنے والے کی پکار کو جب وہ پکارتا ہے مجھے‘ تو چاہیے کہ حکم مانیں میرا اور یقین رکھیں مجھ پر تاکہ راہ راست پا لیں‘‘۔ دعا مانگنا انبیاء کرام اور نبی کریمﷺ کی سنت ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام مختلف مشکلات اور مصائب میں اللہ تعالیٰ کو پکارتے رہے اور اللہ تعالیٰ ان کے مصائب اور مشکلات کو دور فرماتے رہے۔ قرآنِ مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری اور حضرت یونس علیہ السلام کی مشکل کا ذکر ہے کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے مصائب کو دور کر دیا۔ انبیاء کرام اور برگزیدہ شخصیات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ عام انسانوں کی دعائوں کو بھی قبول فرماتے ہیں۔بنی اسرائیل کے لوگوں کا غار کے پتھر والا واقعہ اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل اور دعا کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہو گئی‘ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ اب ان میں سے ایک نے دوسروں کو کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل‘ جو زندگی میں خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا ہو‘ کے واسطے سے اللہ سے دعا کرو۔ اس پر ان تینوں لوگوں نے اپنے اچھے اچھے اعمال کا ذکر کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی اور ہر شخص کی دعا پر پتھر غار کے دہانے سے ہٹتا رہا یہاں تک کہ تیسری دعا پر پتھر مکمل ہٹ گیا۔
توبہ و استغفار۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر توبہ و استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے‘ خواہ وہ کتنے بھی بڑے کیوں نہ ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الزمر کی آیت نمبر 53 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دو (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) اے میرے بندو! جنہوں نے ظلم کیا اپنی جانوں پر‘ مایوس نہ ہوں اللہ کی رحمت سے‘ بلاشبہ اللہ معاف فرما دیتا ہے سارے گناہ۔ یقینا وہ ہے ہی سارے گناہ معاف کرنے والا مہربان‘‘۔ جب انسان کی توبہ قبول ہو جاتی ہے تو انسان کو اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔
استغفار کے فوائد کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ النوح کی آیات 10 تا 12 میں فرمایا ''یقینا وہ ہے بہت زیادہ معاف فرمانے والا۔ برسائے گا وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش اور نوازے گا تمہیں مال و اولاد سے اور پیدا کرے گا تمہارے لیے باغ اور جاری کر دے گا تمہارے لیے نہریں‘‘۔
تقویٰ۔ جب انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اسے تنگیوں سے باہر نکال دیتا ہے۔ سورۃ الطلاق کی آیت نمبر 2 میں فرمایا ''جو ڈرتا رہے گا اللہ سے تو (اللہ) پیدا کر دے گا اس کے لیے نکلنے کی کوئی راہ‘‘۔
توکل۔ جب انسان اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ سورۃ الطلاق کی آیت 3 میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو اللہ پر بھروسہ کرے سو وہ اس کے لیے کافی ہے‘‘۔
شکر۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر 7 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں تمہیں اور زیادہ (نعمتوں سے) نوازوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔
انفاق فی سبیل اللہ۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے خوف اور غم کو دور کر دیتے ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 274 میں ارشاد ہوا ''جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں‘ رات کو اور دن کو‘ چھپا کر اور علانیہ‘ ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ کوئی خوف ہے ان کے لیے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
اگرمذکورہ بالا تدابیر کو اختیار کر لیا جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے مصیبتوں سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کے مصائب کو دور کرکے ہم سب کو امن و سکون والی زندگی عطا فرمائے۔ آمین!