لالہ صحرائی: ادبی دنیا کا کرشمہ

حضرت لالہ صحرائی 70 برس کی عمر تک نہایت خوبصورت‘ دل آویز اور اثر انگیز نثر پاروں کے ذریعے دلوں پر دستک دیتے رہے۔ وہ انشائیے‘ افسانے‘ قلمی چہرے وغیرہ لکھتے رہے۔ اُن کی تحریروں میں مقصدیت یوں شامل ہوتی ہے جیسے پھول میں خوشبو۔
ان ادب پاروں میں گندھی ہوئی یہ خوشبو پُرخلوص لہجے کی گھلاوٹ اور قوتِ استدلال کے ساتھ مل کر قلوب و اذہان میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ جناب لالہ صحرائی ادیب و نثر نگار تھے۔ ایک طرف اردو زبان میں خطوطِ غالب کے بعد سب سے بڑے نثر نگار اور انشا پرداز جناب سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اُن کے زبردست مداح تھے تو دوسری طرف اردو کے عظیم شاعر اور ادیب جناب احمد ندیم قاسمی لالہ صحرائی صاحب کو اپنا ہمدمِ دیرینہ کہتے اور ان کے خوبصورت نثر پاروں کی دل کھول کر تعریف کیا کرتے تھے۔
1990ء تک جناب لالہ صحرائی صرف ایک اعلیٰ پائے کے نثر نگار تھے۔ انہیں جب بھی مدینہ منورہ حاضر ہونے کا موقع ملتا‘ وہ مسجد نبوی کے اندر روضۂ اطہر کے جوار میں اللہ سے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ انہیں نعت گوئی کی خاطر شعر گوئی کا ملکہ عطا کیا جائے۔ پھر واقعی ادبی دنیا میں یہ کرشمہ رونما ہو گیا اور 1990ء میں ایک روز لالہ صحرائی نے یوں نعت گوئی شروع کر دی جیسے وہ برسوں پرانے شاعر ہوں۔ 1990ء میں جناب لالہ صحرائی نے اپنے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید احمد صادق کو اس کرشمے کی اطلاع اپنے ایک مکتوب میں دی۔ وہ خطوط کا زمانہ تھا۔ طائف میں جو خط موصول ہوتا اس پر جدہ یا دمام کے بجائے مدینہ منورہ کی مہر ہوتی‘ تاہم نعت گوئی کی خوش خبری سنانے والے خط پر مدینہ منورہ کی مہر لگی ہوئی تھی۔ جب اس واقعہ کی اطلاع جناب لالہ صحرائی کو پاکستان میں ملی تو انہوں نے حبِ رسولﷺ میں ڈوب کر یہ اشعار کہے۔
حرم بوسی کی خاطر میرا خط پہنچا مدینے میں
اسے جانا تھا گرچہ سیدھا طائف کے حدیقے میں
یہ پیارا واقعہ ہے اِک علامت اُس بشارت کی
کہ ہے موجود میرا حصہ بخشش کے خزینے میں
اس کے بعد تو نعت گوئی کا ایک نہ تھمنے والا چشمۂ فیض جاری ہو گیا جو اُن کی زندگی کے آخری سانسوں تک جاری رہا۔ 1991ء میں لالہ صحرائی کا پہلا مجموعہ لالہ زار نعت شائع ہوا جو 2000ء میں اُن کے آخری سانسوں تک جاری رہا۔ غزواتِ رحمۃ للعالمین سمیت نعت کے پندرہ مجموعے منظر عام پر آ چکے تھے۔
نوجوان قارئین کو یاد دلا دوں کہ جناب محمد صادق 1920ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد گرامی امرتسر میں نہروں کی کھدائی کے کنٹریکٹر تھے جو 1933ء میں جہانیاں میں آ کر آباد ہ ہو گئے۔ پھر جہانیاں ہی اس خانوادے کا جہانِ تگ و تاز قرار پایا۔ 1938ء میں محمد صادق نے پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر انہوں نے لالہ صحرائی کا قلمی نام اختیار کر لیا۔ موصوف اردو‘ فارسی اور انگریزی میں نہایت وسیع المطالعہ تھے۔ ذرا اُس زمانے کی جھلک دیکھیے جب پبلک ریلیشننگ کی نہیں ٹیلنٹ کی قدر تھی۔ تب ناموں کو نہیں کاموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ 1940ء کے لگ بھگ ''استفہامی‘‘ کے عنوان سے نوجوان لالہ صحرائی کا ایک افسانہ جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی نظر سے گزرا۔ قاسمی صاحب لالہ صحرائی کے خوبصورت پیرانہ اظہار‘ افسانے کے فکر انگیز خیال اور وجد آفریں تاثر سے بہت خوش ہوئے۔ قاسمی صاحب نے لالہ صحرائی کا کھوج لگانے کے بعد شوقِ ملاقات کا اظہار کیا۔یوں دونوں صاحبان کی دوستی کا آغاز ہوا جو 2000ء میں لالہ صحرائی کی وفات تک 60برس جاری رہی۔ اُن کی وفات کے بعد بھی قاسمی صاحب کے اپنے دوست کے خانوادے سے محبت و شفقت کے تعلقات اُن کے اس دنیا سے رخصت ہونے تک قائم رہے۔ دیکھیے کیا وضع داری اور دل داری کا زمانہ تھا۔ جناب لالہ صحرائی کا مرکزِ فیض و عقیدت مولانا مودودی کی علمی و دینی شخصیت تھی جبکہ قاسمی صاحب کے خیالات بالکل مختلف تھے۔ تاہم دونوں صاحبان کے درمیان شخصی احترام و محبت کا یہ رشتہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔
جناب لالۂ صحرائی جب کبھی اپنے صاحبزادوں کے پاس طائف تشریف لاتے تو میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ وہ نہایت شفقت و محبت سے پیش آتے۔ اس طرح مجھے اُن سے بارہا براہِ راست اکتسابِ فیض کا موقع ملا۔ انہی ملاقاتوں کے دوران میں نے اپنے سفر نامے ''کنارے کنارے‘‘ کا مسودہ ڈرتے ڈرتے اُن کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی فرمائی۔جناب لالہ صحرائی نے مکمل سفرنامہ پڑھا اور جس جس پیرا گراف میں انہوں نے چند الفاظ سے اصلاح فرمائی اس میں ایک نیا جہانِ معانی پیدا ہو گیا۔ عاجزی و انکساری‘ ہمدردی و غمگساری اور شگفتگی و شائستگی اُن کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ اُن کی ساری اولاد بالخصوص اُن کے دونوں بڑے صاحبزادوں ڈاکٹر جاوید احمد صادق اور ڈاکٹر نوید احمد صادق میں اپنے والد کی شخصی صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ جناب لالہ صحرائی کے دونوں سعادت مند فرزندان اُن کی حیات اور وفات کے بعد مسلسل اُن کے نثری و شعری سرمائے کو نہایت ذوق و شوق کے ساتھ شائع کروا رہے ہیں۔ ہر سال اُن کی یاد میں تقاریب منعقد کرواتے ہیں۔ 5مئی کو لالہ صحرائی فاؤنڈیشن نے بہ اشتراک ادارہ تعلیم و تحقیق جامعہ پنجاب کے تحت ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا جس میں پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ مجیب الرحمن شامی‘ ڈاکٹر ریاض مجید‘ ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر‘ ڈاکٹر زاہرہ نثار‘ لیاقت بلوچ اور انور گوندل نے جناب لالہ صحرائی کے نثری و شعری سرمائے کے حوالے سے نہایت فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا۔
وصال سے صرف تین چار روز قبل ہمارے مہربان شاعر نے اپنی آخری نعت میں فرمایا:
شمعِ مدحت رہے گی تابہ قیامت روشن
ہو گی مدھم نہ کبھی اس کی ضیا میرے بعد
بے بصر میں نہ اٹھوں حشر کے ہنگامے میں
اقربا میرے کریں رب سے دعا میرے بعد
یقینا اُن کے اقربا ایسا ہی کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ دعا جاری و ساری رہے گا۔
منظر نگاری اور تاثر نگاری میں کوئی لالہ صحرائی کا ثانی نہیں۔ ویسے تو ان کا ہر نثر پارہ اپنی جگہ ایک ادبی شاہکار ہوتا ہے مگر بالخصوص جب وہ اپنے نظریاتی اکابر و احباب کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہیں تو اس وقت اُن کی نثر نگاری اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ ''نور منارہ۔سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے روشن تذکرے‘‘ ایسا ہی ایک شاہکار ہے۔ ''چمن میری امیدوں کا‘‘ میں انہوں نے اپنے احباب کے خوبصورت تاثراتی خاکے تحریر فرمائے ہیں۔ ان تاثراتی خاکوں کے دل میں سما جانے والے عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ اپنے زمانے کے نہایت جرأت مند صحافی اور ہفت روزہ تکبیر کے ایڈیٹر جناب صلاح الدین کا خاکہ انہوں نے اُن کی زندگی میں تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا ''فرزندِ وفا‘‘۔ پھر اسی فرزندِ وفا کو کراچی میں ظالموں نے شہید کر دیا تھا۔ اسی شہر کے حکیم محمد اقبال مرحوم کے خاکے کا سرنامہ تھا ''دلربا کنول‘‘ اور مولانا گلزار احمد مظاہری کے بارے میں لکھے گئے مضمون کا عنوان تھا''خوش رو۔ خوش روح‘‘۔
جناب لالہ صحرائی کی شخصی دلربائی‘ علمی گہرائی‘ خوبصورت نثر نگاری و نعتیہ شاعری اور اُن کی عاجزی و انکساری نے اُن کی زندگی میں ہی اُن کی شخصیت کو مرجع خلائق بنا دیا تھا۔
ہماری دعا ہے کہ انہیں دیدارِ الٰہی اور محبوب خدا کا قرب حاصل ہو۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں