"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ کے آزاد اراکین کا مستقبل

سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ نشستیں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104کے تحت دوسری سیاسی جماعتوں کو الاٹ کر دی تھیں لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 51کے تحت اس فیصلے کو معطل کر دیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے قومی اسمبلی کی 23‘ پنجاب اسمبلی کی 27‘ خیبر پختونخوا اسمبلی کی 25اور سندھ اسمبلی کی دو مخصوص نشستوں کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ قومی اسمبلی کی وہ 23مخصوص نشستیں ‘ جن کی سنی اتحاد کونسل دعویٰ دار ہے‘ اُن میں سے 15مسلم لیگ (ن)‘ پانچ پیپلز پارٹی اور تین جے یو آئی (ف) کے پاس ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تین رُکنی بینچ کے اس فیصلے کو برقرار رکھتا ہے تو سنی اتحاد کونسل کی قومی اسمبلی میں نشستیں 84سے بڑھ کر 107جبکہ پنجاب اسمبلی میں 103 سے بڑھ کر 130تک پہنچ جائیں گی جس سے وہ مستقبل میں ان دونوں اسمبلیوں میں ہونے والی قانون سازی میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کی نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں کو الاٹ کرنے پر الیکشن کمیشن کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے تو الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جسے مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے۔الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ تو معطل ہو سکتا ہے لیکن اس تناظر میں اس کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
ان دنوں سینیٹ کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے سینیٹرز کے مستقبل کے حوالے سے بھی بحث جاری ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء میں آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹرز کیلئے کوئی قدغن نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 59‘ 60 اور 224 بھی یہ واضح کرتے ہیں کہ سینیٹ کے اراکین آزاد حیثیت سے بھی منتخب ہو سکتے ہیں لیکن انہیں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کسی سیاسی جماعت کے حمایت یافتہ اراکینِ صوبائی اسمبلی کی معاونت بہر حال درکار ہوتی ہے۔ سینیٹ الیکشن کے کاغذاتِ نامزدگی کے فارم میں بھی امیدوار کو اپنی سیاسی وابستگی یا آزاد حیثیت واضح کرنا ہوتی ہے۔ سینیٹ میں آزاد اراکین کا تصور اس وقت سامنے آیا جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے فروری 2018ء میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ چونکہ نواز شریف کو 27 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 (ون)(ایف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے لہٰذا وہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 3 اور 4 کے مطابق کسی سیاسی جماعت کے سربراہ یا عہدیدار منتخب نہیں ہو سکتے۔ اس فیصلے سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ کی 11 نشستوں کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی اس بنا پر مسترد کر دیے گئے تھے کیونکہ انہیں میاں نواز شریف کے دستخطوں سے پارٹی ٹکٹ ایوارڈ کیے گئے تھے۔ راجہ ظفرالحق نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین کی حیثیت سے ان گیارہ امیدواروں کیلئے از سر نو پارٹی ٹکٹ جاری کیے جو الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیے۔ بعد ازاں درمیانی راستہ نکالتے ہوئے اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا نے یہ فیصلہ سنایا کہ یہ امیدوار کاغذاتِ نامزدگی کیساتھ ایک حلف نامہ منسلک کر دیں کہ ان کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ آزاد امیدوار تصور کیے جائیں‘ لہٰذا سسٹم کو چلانے اور سینیٹ انتخابات کو مؤخر ہونے سے بچانے کیلئے نظریۂ ضرورت کے تحت ان امیدواروں کو آزاد تصور کرتے ہوئے انکے کاغذاتِ نامزدگی منظور کر لیے گئے۔ یہ سینیٹرز بظاہر آزاد تھے لیکن اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پالیسی کے پابند تھے کیونکہ ان کی کامیابی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت کی مرہونِ منت تھی۔دو اپریل کو منعقد ہونیوالے حالیہ سینیٹ انتخابات میں جو آزاد امیدوار جنرل نشستوں پر بلا مقابلہ یا بعد از الیکشن کامیاب ہوئے ہیں‘ انہیں مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل تھی اور ان کے تجویز کنندگان کا تعلق بھی مسلم لیگ (ن) ہی سے تھا‘ لہٰذا جمہوری اصولوں کے مطابق اب ان آزاد اراکینِ سینیٹ کو مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لینی چاہیے۔ آزاد اراکین کو عموماً کابینہ اور بیورو کریسی کی حمایت حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کیلئے انہیں کسی سیاسی جماعت کی ضرورت پڑتی ہے۔
شنید ہے کہ میاں نواز شریف وسط مئی تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھالنے والے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 205 کے تحت اس پیش رفت کے حوالے سے مطلع کر دیا جائے گا۔ پارٹی کی صدارت سنبھالنے کے بعد وہ اہم ترین پارلیمانی فیصلے کرنیوالے ہیں۔ ان کی اشیرباد سے وفاقی کابینہ بھی ازسرِ نو تشکیل دی جا سکتی ہے۔اگر مسلم لیگ (ن) کی صدارت پھر سے میاں نواز شریف کے پاس چلی جاتی ہے تو شہباز شریف کی سیاسی طاقت برائے نام رہ جائے گی اور تمام اختیارات کا سرچشمہ نواز شریف کی ذات بن جائے گی۔ نواز شریف جماعت کی صدارت سنبھالنے کے بعد مخصوص حلقوں کو یہ پیغام پہنچانے کے خواہش مند ہیں کہ وہ ابھی تک سیاسی کھیل میں پوری طرح سے ان ہیں۔ وہ عمران خان کے سحر کو بھی توڑنا چاہتے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ میاں نواز شریف وفاقی کابینہ میں چند افراد کی شمولیت اور حکومت کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ وہ وفاقی کابینہ میں اُن افراد کی شمولیت کے متمنی ہیں جو اُن کے قریبی تصور کیے جاتے ہیں لیکن انہیں بوجوہ وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ میاں نواز شریف صدارت سنبھالنے کے بعد مولانا فضل الرحمن‘ محمود خان اچکزئی‘ جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمن‘ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک کو ساتھ ملا کر ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جس کے بعد وہ اپنا سیاسی سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں اگست 2017ء میں ختم کیا تھا۔دوسری طرف رانا ثنا اللہ اور عرفان قادر کو وزیراعظم کے معاونِ خصوصی کی اہم ترین ذمہ داریاں سونپی جا چکی ہیں۔ شنید ہے کہ اسحاق ڈار کے ڈپٹی وزیراعظم مقرر ہونے پر کابینہ کے چند اراکین ناخوش ہیں جن میں وفاقی وزیر خزانہ کا نام بھی شامل ہے کیونکہ اس تقرری سے ان کے اختیارات متاثر ہو سکتے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اگلے مرحلے میں جاوید لطیف کو بھی وزیراعظم کی مشاورتی ٹیم کا حصہ بنوا دیں گے۔
اُدھر عمران خان نے بھی مقتدر حلقوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی ہے اور اس کی ذمہ داری شبلی فراز کو سونپی گئی ہے۔ شبلی فراز دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی مذاکرات کریں گے۔ شبلی فراز کو ان سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرتے ہوئے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرنا پڑیں گے۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ تحریک انصاف کے وہ رہنما جنہوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے جماعت سے علیحدگی اختیار کی تھی وہ پھر سے تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے پر تول رہے ہیں۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی طرف سے اولین شرط یہ رکھی گئی ہے کہ صرف اُنہی افراد کو جماعت میں واپسی کا راستہ فراہم کیا جائے گا جنہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان کی کردارکشی نہیں کی تھی اور چند رسمی جملوں کی ادائیگی کے بعد جماعت سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا تھا۔ میرے خیال میں ان میں فواد چودھری‘ اسد عمر‘ فرخ حبیب‘ صداقت عباسی‘ نواز اعوان اور علی زیدی جیسے رہنما شامل ہیں۔ تحریک انصاف پر وکلا کے غلبے سے بانی تحریک انصاف سیاسی طور پر کمزور ہوئے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی جماعت میں سرکردہ سیاسی شخصیات کو پھر سے شامل کرکے اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنا چاہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں