اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

تعلیمی ایمرجنسی

وفاقی حکومت نے آئندہ چار سال کیلئے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے تحت تعلیمی بجٹ کو 0.5 فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد کرنے اور جو دو کروڑ 60 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں‘ ان کی اکثریت کو سکولوں میں داخل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کے مطابق سکول نہ جانے والے بچوں کی عالمی فہرست میں پاکستان سب سے اوپر ہے۔ حکومتی سطح پر شعبۂ تعلیم سے مسلسل صرفِ نظر اور غفلت کی وجہ سے صرف گزشتہ ایک سال کے دوران 30 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے دور ہو گئے۔ نئی نسل کی تعلیم سے دوری نہ صرف اُن کی انفرادی بلکہ قومی زندگی پر بھی شدید منفی اثرات مرتب کررہی ہے ۔تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے جس کی اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی توثیق کی گئی ہے اور آئین پاکستان بھی اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے باوجود تعلیم کے شعبے سے حکومتی بے فکری ملک عزیز کو تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا میں سر فہرست لے آئی ہے۔ شعبۂ تعلیم کی زبوں حالی پر قابو پانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے‘ حکومت کی طرف سے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ سے توقع کی جانی چاہیے کہ اُن پر غور کیا جائے گا۔ کم آمدنی والا طبقہ محدود استطاعت اور اپنے معاشی مسائل کی وجہ سے بچوں کو سکول داخل کرانے کے بجائے کام پر لگا دیتا ہے۔ اس لیے تعلیمی بحران سے نمٹنے کے لیے زیریں طبقے کے معاشی مسائل کو بھی حل کرنا ہو گا۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement