اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

صدر رئیسی کا سانحہ ارتحال

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سمیت دیگر رہنماؤں کی ہیلی کاپٹر حادثے میں وفات برادر اور ہمسایہ ملک ایران کیلئے غیر معمولی سانحہ ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف اظہارِ افسوس کیلئے ایرانی سفارتخانے تشریف لے گئے اور حکومت اور قوم کی جانب سے ہمدردی اور دعاؤں پر مبنی تاثرات کا اظہار کیا۔صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنے تعزیتی بیان میں مرحوم صدر کو اُن کی خدمات اور پاکستان ایران دوستی اور علاقائی استحکام کیلئے اُن کے کردار کی وجہ سے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس حادثے پرپاکستان میں بھی قومی سوگ کا اعلان کیا گیا۔ مرحوم ابراہیم رئیسی پاکستان کے ایک مخلص دوست تھے‘ جس کا ثبوت انہوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کی بھر پور کوششوں کے ساتھ دیا۔ گزشتہ ماہ اپنے تین روزہ دورۂ پاکستان کے موقع پر انہوں نے اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں وقت گزارا اور پاکستانی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران جن جذبات کا اظہار کیا اس سے ان کی یہ خواہش مترشح تھی کہ وہ ہر شعبے میں پاک ایران تعلقات کے فروغ کے متمنی ہیں۔ دو طرفہ تجارتی حجم بڑھانے کی بات ہو یا سرحدی منڈیوں اور اکنامک زون کی سہولتیں یا سکیورٹی انتظامات کی بہتری‘ ابراہیم رئیسی کے اقدامات دونوں ممالک کے تعلقات‘ خوشحالی اور علاقائی ترقی و استحکام کیلئے امید افزا تھے۔ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کا حادثہ ایسے حالات میں پیش آیا ہے جب مشرق وسطیٰ کا خطہ پہلے ہی تنازعات اور تصادم کی لپیٹ میں ہے۔ یہ حالات صرف فلسطین اسرائیل تنازع اور غزہ پر آٹھ ماہ سے جاری اسرائیلی بربریت ہی کی وجہ سے نہیں‘ ایران اور اسرائیل کے مابین براہِ راست تصادم کے واقعات بھی آئے روز پیش آ رہے ہیں۔اپریل کے شروع میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد علاقائی صورتحال مزید نازک صورت اختیار کر گئی۔ اس پس منظر میں یہ حادثہ علاقائی صورتحال پر کس طرح اثر انداز ہو گا‘ یہ بھی قابلِ غور ہے۔ اس ناگہانی صورتحال میں پاکستان کے علاوہ خلیجی عرب ریاستوں‘ چین‘ روس اوربعض یورپی ممالک سمیت دیگر خطوں کے متعدد ممالک اور عالمی اداروں کی جانب سے بھی ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اصول ہے‘ اس افسوسناک واقعے کو ایک حادثہ ہی تصور کیا جائے گا‘ تاوقتیکہ اس حوالے سے کوئی دوسری قابلِ یقین شہادت سامنے نہیں آ جاتی۔ حادثے کا سبب بننے والا ہیلی کاپٹر امریکی ساختہ اور پرانا بتایا جاتا ہے‘ تاہم خبروں کے مطابق اس نسل کے ہیلی کاپٹر متعدد ممالک میں سرکاری اور نجی شعبے میں بدستور زیر استعمال ہیں؛ چنانچہ جامع اور ٹھوس تحقیقات کی ضرورت ہے یہ سمجھنے کے لیے کہ ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر کیونکر حادثے کا نشانہ بنا۔ اس اندوہناک واقعے کے بعد دو ماہ کیلئے قائم ہونے والی ایران کی عبوری حکومت ملک میں صدارتی انتخابات کروائے گی۔ حکومت پاکستان اور عوام کی دعا اور امید ہے کہ ایرانی قوم اس اندوہناک صورتحال کا مقابلہ جرأت اور ثابت قدمی سے کرے گی اور مشکل صورتحال کو اپنی کمزوری نہیں بننے دے گی۔ ایران کی عبوری حکومت اور آنے والی منتخب قیادت سے بھی پاکستان اسی جذبے‘ خلوص‘ تعاون اور برادرانہ تعلقات کی روایت برقرار رکھنے کی امید کرتا ہے‘ صدرابراہیم رئیسی نے جس کی بنیاد رکھی تھی۔ علاقائی استحکام اور امن بھی اس کا متقاضی ہے کہ مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال پر قابو پایا جائے‘ نہ کہ یہ آگ کسی اور رُخ پر پھیلنے لگے۔ ان حالات میں آنے والے ایرانی صدر کی ذمہ داریاں خاصی اہم ہو ں گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں