اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

کاروباری اعتماد کا بحران

ملک میں کاروباری اعتماد کا جائزہ لینے کیلئے کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق کاروباری حلقے ملک میں جاری سیاسی بحران اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ ’گیلپ بزنس کانفیڈنس انڈیکس‘ کیلئے 30 اضلاع میں کیے گئے 454 چھوٹے‘ بڑے اور درمیانے کاروباری اداروں کے سروے کے مطابق ملک میں کاروبار کی موجودہ صورتحال‘ کاروبار کے مستقبل اور ملک کی سمت جیسے بنیادی اشاریوں کے جواب منفی میں ملے ہیں۔ 57فیصد کاروباری رائے دہندگان نے مستقبل سے مایوسی کا اظہار کیا ۔ 85 فیصد رائے دہندگان نے حکومت کے معاشی پلان کو کاروباردوست قرار نہیں دیا جبکہ 60 فیصدکاروباری رائے دہندگان نے سیل کے اعتبار سے اس سال کو بدترین سال قرار دیا۔ نو فیصد رائے دہندگان نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ناقص کاروباری حالات کی وجہ سے افرادی قوت میں تخفیف کا عندیہ دیا جبکہ صرف 18 فیصد رائے دہندگان نے ملکی سمت کو درست قرار دیا ۔ 57  فیصد رائے دہندگان نے ملک میں کاروبار کے مستقبل کے حوالے سے منفی توقعات کا اظہار کیا‘ صرف43فیصد پُر امید تھے۔سروے کے مطابق ہر 10 میں سے 6 بزنس لوڈ شیڈنگ کا سامنا کررہے ہیں ۔مجموعی طور پر 61 فیصد کاروباری اداروں کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ سروے کے مطابق مستقبل کے حوالے سے کاروباری اعتماد کے سکور میں پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں 36 فیصد کمی آئی اور اب یہ 14 فیصد پر کھڑا ہے۔یہ سروے ملک کے معاشی حالات اور مستقبل کے خدشات کے حوالے سے حکمرانوں اور معاشی منصوبہ سازوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونا چاہیے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ معیشت کے چیلنجز کی صرف بیانیے کے زور سے پردہ پوشی نہیںکی جا سکتی۔ یہ مسئلہ اندر ہی اندرخاصا تشویشناک ہو چکا ہے اور اگر اس کے علاج کیلئے فوری اقدامات نہ کیے تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔ معاشی بحران کے علاوہ جو چیز زیادہ تشویش کا باعث ہے وہ ملک کے معاشی امکانات پر کم ہوتا اعتماد ہے‘ جو سیاسی انتشار اور معاشی مسائل پر قابو پانے کیلئے حکومت کی جانب سے کاسمیٹک اقدامات کا نتیجہ ہے۔یہ اس سوال کا بھی جواب ہے کہ معیشت کو ملکی سیاست سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ پچھلے دو‘ ڈھائی برس کے دوران اندورن اور بیرون ملک سے متواتر اس جانب توجہ دلائی گئی کہ معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے سیاسی بحران پر قابو پانا ہو گا۔ سیاسی بحران پر بروقت قابو پالیا جاتا تو ملک کے معاشی مسائل یقینا  کم ہوتے اور کاروباری اعتماد کا درجہ بھی کہیں بہتر ہوتا۔حکمرانوں کو چاہیے کہ کاروباری اعتماد کے زوال کو تنبیہ کے طور پر لیا جائے۔ اصولی طور پر اس کام کے کرنے کا وقت دو برس پہلے تھا مگر اتنی تاخیر سے شروع کر دیا جائے تو بھی نہ کرنے سے بہرحال بہتر ہے۔ معاشی استحکام کیلئے حکومت جو کچھ بھی کررہی ہے اوہ اپنی جگہ‘ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس سلسلے میں حکومتی چارہ گری اپنا اثر دکھانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے اور معیشت کا جہاز تیزی سے نیچے جا رہا ہے۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ توانائی کے نرخ غیر معمولی بلند سطح پر پہنچ چکے ہیں اور کاروباری اعتماد کا جو حال ہے وہ اس سروے سے سب کے سامنے ہے۔ ہر چند کہ بچاؤ کے آپشنز بتدریج گھٹتے گھٹتے اب خاصے کم ہو چکے ہیں مگر اب بھی امید کی کرن سیاسی بحران کے خاتمے ہی سے پھوٹ سکتی ہے؛ چنانچہ حکمرانوں کو دیر آید درست آید کے مصداق سیاسی مفاہمت کیلئے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس سلسلے میں مزید جتنی تاخیر ہو گی اسکی معاشی قیمت بڑھتی چلی جائے گی۔ مہنگائی اور کاروباری نمو کے امکانات کی کمی کی صورت میں ہم پہلے ہی اس کی بہت قیمت چکا رہے ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ‘ غربت اور بیروزگاری کی صورت میں یہ بحران سماجی انتشار کو بھی ہوا دے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں