شہرِ اقتدار اسلام آباد اپنی خوبصورتی اور پُرسکون ماحول کے لیے مشہور ہے۔ 1960ء کی دہائی میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا یہ شہر مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے اور اس کا نظارہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ پہاڑیوں کا دلکش منظر‘ شہر کے منظم اور وسیع و عریض پارک اور جدید تعمیرات کا حسین امتزاج اسلام آباد کو ایک منفرد شناخت دیتا ہے۔ چند برس پہلے تک اسلام آباد واقعی نسبتاً کم آبادی اور انتہائی کم جرائم والے شہروں میں شامل تھا۔ لوگ بلا خوف و خطر گلیوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ اس پُرسکون ماحول میں رہنے کا الگ ہی لطف تھا‘ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال بدلتی گئی۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور انفراسٹرکچر اس کے ساتھ مطابقت نہیں رکھ پایا۔ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ شہر میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ ماضی کی پُرسکون فضا بے سکون ہوتی گئی۔ اور اب اسلام آباد شہرِ بے اماں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جرائم کی شرح ہوشربا حد تک بڑھ گئی ہے۔ شہریوں کو راہ چلتے لوٹ لیا جاتا ہے۔ سٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتوں سے شہری عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام آباد میں جرائم کی شرح یکدم بڑھی ہے‘ معاملات برسوں کی عدم توجہ اور غفلت کی وجہ سے اس نہج تک پہنچے ہیں‘ جس کی تمام تر ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اسلام آباد کراچی کی طرح گنجان آباد شہر نہیں ہے کہ یہاں سٹریٹ کرائمز میں ملوث افراد کو پکڑا نہ جا سکے۔
2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پورے ملک میں دہشت گردی کی خوفناک لہر نے سر اٹھا لیا۔ رحمان ملک مرحوم اُس وقت وزیر داخلہ تھے‘ انہوں نے اسلام آباد کو سیف سٹی بنانے کے لیے یہاں کیمرے نصب کرنے کا پروگرام پیش کیا مگر فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔ 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی اور چودھری نثار علی خاں وزیر داخلہ بنے تو ایک بار پھر اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے پروگرام پر غور کیا جانے لگا۔ بالآخر 2016ء میں حکومت نے اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے لیے شہر کے مختلف مقامات پر اربوں روپے کی لاگت سے دو ہزار کے قریب سکیورٹی کیمرے لگوائے۔ اس اقدام کا مقصد جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو پکڑنے میں آسانی پیدا کرنا تھا۔ کیمروں کی تنصیب کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ جرائم کی شرح میں کمی آئے گی اور لوگ خود کو زیادہ محفوظ محسوس کریں گے‘ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ جرائم کی شرح میں کمی کے بجائے کچھ علاقوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس کی وجوہات پر مختلف سوال اٹھائے گئے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ کیمروں کا معیار اچھا نہیں تھا اور رات کے وقت وہ کارآمد ثابت نہیں ہو رہے تھے۔ اس کے علاوہ کنٹرول روم میں سٹاف کی کمی کا بھی سامنا تھا جس کی وجہ سے مسلسل نگرانی میں مشکلات تھیں۔ یہ بات ضرور ہے کہ سکیورٹی کیمرے جرائم کی روک تھام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں‘ لیکن صرف سکیورٹی کیمرے کافی نہیں ہیں۔ جرائم کی روک تھام کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں مؤثر پولیسنگ‘ سخت سزائیں اور سماجی مسائل کا حل بھی شامل ہونا چاہیے۔ مزید برآں آٹھ برس قبل اسلام آباد کو سیف سٹی بنانے کا منصوبہ اُس وقت کی آبادی کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا‘ ان آٹھ برسوں میں آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ سکیورٹی کیمرے صرف چند ایک سیکٹرز تک ہی محدود ہیں جو تقریباً 30فیصد آبادی کی نگرانی کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔
وفاقی دارالحکومت میں صوبوں کی نسبت بہترین سکیورٹی نظام قائم کیا گیا ہے۔ یہاں پولیس کا سربراہ آئی جی اسلام آباد ہے۔ ذمہ داریوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پورے صوبے میں ایک آئی جی پولیس ہوتا ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت‘ جو کہ محض ایک شہر ہے‘ یہاں الگ سے آئی جی تعینات کیا گیا ہے۔ 1975ء میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایکٹ 1974ء کے تحت اسلام آباد کے لیے ایک الگ پولیس فورس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس نئی فورس کو وفاقی تحقیقاتی ادارۂ پولیس کا نام دیا گیا۔ اس پولیس فورس کی سربراہی کے لیے ایک ڈی آئی جی تعینات کیا گیا۔ 1980ء کی دہائی میں اس فورس کا نام تبدیل کرکے وفاقی دارالحکومت پولیس (فیڈرل کیپٹل پولیس) کر دیا گیا اور اس کا سربراہ ڈی آئی جی سے آئی جی کے عہدے پر ترقی پا گیا۔ آئی جی اسلام آباد براہِ راست وزارتِ داخلہ کے ماتحت کام کرتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں پولیس کا الگ نظام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں صرف جرائم کا تدارک ہی نہیں بلکہ وفاقی اداروں اور سفارت خانوں کی سکیورٹی بھی اس محکمے کی ذمہ داری ہے۔ صوبوں سے الگ اس فورس کو وفاقی حکومت کے ماتحت رکھا گیا ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں آزادانہ طور پر پوری کر سکے حتیٰ کہ اسلام آباد کی اپنی الگ ٹریفک پولیس بھی ہے جسے اسلام آباد ٹریفک پولیس یا ماڈل ٹریفک پولیس فورس کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ اس اضافی بندوبست کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دارالحکومت میں مثالی ماحول قائم کیا جائے۔
اس حکومتی بندوبست کے باوجود اگر جرائم میں کمی نہ آئے تو اس کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ اداروں اور شخصیات پر عائد ہوتی ہے۔ اگر آئی جی اسلام آباد کی سرکاری رہائشگاہ کے باہر سے ہی چور ٹیلی فون کیبلز کاٹ کر لے جائیں تو باقی شہریوں کی سکیورٹی کس قدر اہم چیلنج ہو گی؟ پچھلے چند روز سے اسلام آباد کے تھانوں میں سسٹم فعال نہ ہونے کی وجہ سے ایف آئی آر کا اندراج بھی مشکل ہو گیا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جب سنیارٹی کو پس پشت ڈال کر جونیئر افسران کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے تو دیگر افسران تعاون کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں‘ یوں میرٹ کی پامالی کا نقصان عام شہریوں کو عدم تحفظ کی صورت اٹھانا پڑتا ہے۔ آپ کو آئس لینڈ کے دلکش اور خوبصورت دارالحکومت ریکیاوک (Reykjavík) جانے کا اتفاق ہوا ہو تو وہاں کی پُرسکون فضا اور قدرتی مناظر کو آپ نے کھلی آنکھوں دیکھا ہو گا۔ یہ دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں سے ایک ہے‘ جہاں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے اور لوگ بغیر کسی خوف کے گلیوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ وہاں کی مضبوط سماجی فلاحی ریاست ہے جو اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتی ہے جس سے غربت اور جرائم میں کمی آتی ہے۔ اسی طرح سوئٹزرلینڈ کے دارالحکومت برن کی صفائی ستھرائی اور خوبصورت مناظر تو مشہور ہیں ہی‘ لیکن جرائم کی کم شرح اسے رہنے کے لیے ایک مثالی جگہ بنا تی ہے۔ یہاں پولیس کی کارکردگی بھی قابلِ ستائش ہے اور قانون کی حکمرانی پر زور دیا جاتا ہے‘ جس سے جرائم کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بھی چند برس پہلے تک دنیا کے خوبصورت اور پُرامن شہروں میں شامل تھا۔ شہرِ اقتدار کا امن کیسے غارت ہوا‘ اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر جرائم کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو اسلام آباد کی شاہراہیں غیرملکی سیاحوں کے لیے بھی غیرمحفوظ ہو جائیں گی‘ خدانخواستہ کسی غیر ملکی سیاح کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ گیا تو پاکستان کا رخ کرنے والوں کی تعداد مزید کم ہو جائے گی۔ جرائم کی شرح جتنی کم ہو‘ امن کا احساس اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے اور اس بات کا اثر معاشرے کے معیارِ زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ کرائم کی شرح کم کیے بغیر شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہم اپنے شہروں کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ نہ صرف وفاقی ادارلحکومت بلکہ دیگر شہروں حتیٰ کہ دیہات میں بھی ایسا سکیورٹی بندوبست ہونا چاہیے کہ شہری بلا خوف و خطر جہاں جانا چاہیں جا سکیں۔