"KMK" (space) message & send to 7575

’’دل دہل جاتا ہے ان خالی جگہوں کے سامنے‘‘

جنوبی افریقہ بہت سے حوالوں سے مجموعۂ اضداد ہے۔ ترتیب اور بے ترتیبی کا شاہکار دیکھنا ہو تو جنوبی افریقہ کو دیکھ لیں۔ سب لوگ صبح خیز ہیں۔ صبح پانچ بجے ایسٹ لندن جانے کیلئے جوہانسبرگ ایئرپورٹ روانہ ہوا تو لگا سارا شہر جاگ رہا ہے۔ سڑک پر گاڑیاں تو ابھی بہت زیادہ نہ تھیں لیکن سڑک کنارے جوگنگ کرتے ہوئے پیر و جوان‘ مرد اور عورتیں‘ بلا مبالغہ سینکڑوں لوگ تھے جو منہ اندھیرے سڑکوں کے کنارے دوڑ لگا رہے تھے۔ بے تحاشا لوگ سائیکل پر ورزش کرنے نکلے ہوئے تھے۔ محمد علی انجم نے بتایا کہ صبح سویرے منہ اندھیرے اٹھنا جنوبی افریقہ والوں کا طرۂ امتیاز ہے‘ تاہم اب ہم جیسے لوگوں کی صحبت اور عادتوں سے متاثر ہو کر ان میں بھی سستی آ رہی ہے مگر اس سستی کے باوجود اب بھی مقامی‘ خواہ وہ کالے ہوں‘ گورے ہوں یا رنگدار ہوں‘ صبح جلد اٹھتے ہیں اور شام چار پانچ بجے اپنا کام ختم کرکے گھر کی راہ لیتے ہیں۔
میں نے اوپر جو کالے‘ گورے اور رنگدار لکھا ہے تو یہ جنوبی افریقہ کی سرکار کی جانب سے یہاں رہنے والی چار قومیتوں کو دیے گئے ناموں میں سے تین نام ہیں۔ یہ چار قومتیں کالے‘ رنگدار‘ گورے اور انڈین ہیں۔ یہ ترتیب آبادی کے حساب سے ہے وگرنہ گوروں کے دور میں حاصل حقوق کے حساب سے یہ ترتیب گورے‘ رنگدار‘ انڈین اور کالے تھی۔ گورے تو حکمران تھے اور سب سے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز تھے۔ رنگدار سے مراد وہ نسل تھی جو گورے مردوں کے کالی عورتوں سے تعلقات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی تھی اور اس میں شامل سفید خون کی وجہ سے دیگر دو اقوام یعنی انڈین اور کالوں سے برتر تصور ہوتی تھی۔ تیسرے نمبر پر انڈین تھے یہ وہ لوگ ہیں جو 1860ء کے لگ بھگ ہندوستان سے بطور مشقتی مزدور اور کھیت مزدور لائے گئے تھے۔ یہ گزشتہ ایک سو ساٹھ‘ ستر سال سے ادھر ہیں۔ یہ لوگ افریقی غلاموں کی مانند نہ سہی مگر تقریباً تقریباً اسی طرز پر ہندوستان سے لائے گئے تھے۔ انگریز یہاں افریقہ میں ریلوے لائن بچھا رہا تھا‘ تعمیرات کر رہا تھا اور کیپ ٹاؤن سے اوپر ڈربن وغیرہ تک گنے کی کاشت کر رہا تھا جس کیلئے اسے مزدور درکار تھے۔ مقامی جنگلی لوگ یہ کام سرانجام دینے کے قابل نہ تھے اس لیے یہ مزدور ہندوستان سے جہازوں میں بھر بھر کر لائے گئے۔ ان میں بہت سے لوگ گو کہ غیر ہنر مند تھے تاہم افریقی قبائل کی نسبت بہت مہذب اور تربیت یافتہ تھے اس لیے تمام تر ترقیاتی‘ تعمیراتی اور زرعی کاموں کیلئے ان کو ہندوستان سے لایا گیا۔
شروع شروع میں ان لوگوں کو انگریز اپنی نسلی برتری اور حکمرانی کے زعم میں تحقیر سے ''قلی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ سلسلہ بہت عرصہ چلتا رہا پھر نسل پرستی اور تحقیر پر مبنی یہ لقب قانوناً ممنوع قرار پایا۔ اب کسی انڈین کو قلی پکارنا جرم ہے۔ Apartheid یعنی نسلی بنیادوں پر علیحدگی کا باقاعدہ اختتام 1994ء میں ہوا جب مقامی افریقی لوگوں کی نمائندہ سیاسی پارٹی افریقن نیشنل کانگریس نے نیلسن منڈیلا کی قیادت میں غیرمعمولی اکثریت سے الیکشن میں فتح حاصل کی اور جنوبی افریقہ کا اقتدار سنبھالا۔ نیلسن منڈیلا آزادی کی اس جدوجہد میں روبن آئی لینڈ‘ پولسمور اور وِکٹر ویرسٹر جیل میں 27سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد 1990ء میں رہا ہوا۔ منڈیلا کی رہائی کے بعد اپارتھیڈ یعنی نسل پرستی کی بنیاد پر قائم حکومت کے سربراہ ڈی کلیرک اور منڈیلا کے درمیان اس نظام کے خاتمے کیلئے مذاکرات شروع ہوئے۔ افریقن نیشنل کانگریس پر عائد پابندی کا خاتمہ ہوا اور 1994ء میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ 27سال تک آزادی کی خاطر جیل بھگتنے والا نیلسن منڈیلا 1994ء میں پانچ سال کیلئے جنوبی افریقہ کا صدر منتخب ہوا۔ منڈیلا کی ساری جدوجہد اور قربانیوں کا مقصد صرف ملک کی آزادی تھی۔ اس نے علامتی طور پر ملک کے صدر کا عہدہ سنبھالا تاہم وہ اس قسم کے عہدوں سے کہیں اوپر کے درجے پر فائز تھا۔ اگلے الیکشن میں اس نے امیدوار بننے اور ملک کا اقتدار سنبھالنے سے معذرت کر لی۔ ادھر یہ عالم ہے کہ چند روز قید میں گزارنے والے اپنی قربانیوں اور جدوجہد کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے اور بار بار اقتدار کے مزے لینے کے باوجود اقتدار کی گاڑی سے اترنے کا نام نہیں لیتے۔ اس کیلئے آئین میں تبدیلی کرواتے ہیں اور مرتے دم تک حکمرانی کرنے کے شوق میں مقتدر حلقوں سے ہر قسم کا سمجھوتا خواہ‘ وہ کتنا ہی ذلت آمیز کیوں نہ ہو‘ کرنے پر تیار رہتے ہیں اور حقیقی اختیارات سے عاری حکمرانی قبول کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
افریقہ میں یورپی اقوام کی آمد اور نو آبادیاتی نظام کا آغاز 1487ء میں پرتگالیوں کی آمد سے ہوا۔ چار دسمبر کو پرتگیزیوں کا پہلا جہاز والوس بے (نمیبیا) پر لنگر انداز ہوا۔ سترہویں صدی کے آغاز میں جب پرتگالیوں کی بحری مہمات اور طاقت کو زوال آنا شروع ہوا تو برطانوی اور ڈچ بحری مہمات کے ذریعے اپنے پاؤں پھیلانے میں کامیاب ہو گئے۔ ولندیزیوں نے نئی طاقت کے طور پر پرتگالیوں سے مصالحہ جات کی منافع بخش تجارت چھین لی۔ 1647ء میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک بحری جہاز تباہ ہو گیا اور اس حادثے میں ولندیزی کمپنی کے دو ملازمین کو کیپ (افریقہ کا جنوبی آخری سرا) کے قریب مقامی لوگوں نے بچا لیا۔ انہوں نے واپس جا کر بتایا کہ کیپ میں لمبے بحری سفر کے دوران مالِ تجارت کے گودام اور خوراک کی ترسیل و فراہمی کے بے تحاشا امکانات ہیں‘ اس لیے اس طرف توجہ دی جائے۔ افریقہ کے اوپر سے گھوم کر آنے والے بحری راستے کی دریافت کے قریب 150سال بعد کیپ آف گڈہوپ (بعد ازاں کیپ ٹاؤن) میں اپنا خوراک اور راشن کا سٹیشن قائم کر لیا۔
ایک طویل بحری سفر میں جہازیوں کو Seasickness کے بعد جب لنگر انداز ہونے کیلئے پہلی مناسب جگہ ملی تو انہوں نے اسے کیپ آف گڈ ہوپ کا نام دے دیا۔ بچپن میں ہم جغرافیے کی کتابوں میں اس جگہ کا نام اردو میں ''راس امید‘‘ پڑھتے تھے۔ کیپ آف گڈ ہوپ کی طرف جاتے ہوئے میں نے ڈاکٹر نثار برکی سے پوچھا کہ کیپ آف گڈ ہوپ کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔ ڈاکٹر برکی نے چند لمحے سوچا پھر کہنے لگا کہ اسے اس کا علم نہیں ہے۔ میں نے ہنس کر کہا کہ اگر آپ نے بھی ہماری طرح ٹاٹوں والے سکول میں تعلیم حاصل کی ہوتی تو آپ کو علم ہوتا کہ اسے اردو میں راس امید کہتے ہیں اور اسے یہ نام لمبے سمندری سفر کے بعد لنگر انداز ہونے کی سہولت کی حامل جگہ کے دکھائی دینے پر سمندری بیماری کے واسطے امید کی کرن دکھائی دینے کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔ اس سے تھوڑا ہٹ کر کیپ پوائنٹ ہے۔ وہاں پر ایک لائٹ ہاؤس ہے۔ اللہ جانے اب اس مینار پر روشنی ہوتی ہے یا نہیں مگر سیاح بہت آتے ہیں۔ نیچے سے ایک چھوٹی سی ٹرالی کو لوہے کے رسے سے کھینچ کر اوپر لایا جاتا ہے۔ وہاں سے پیدل سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ یہ سیڑھیاں بھلا ڈیڑھ‘ دو سو سے کیا کم ہوں گی۔ تین بار رک کر‘ سانس درست کرکے اور گھٹنوں کو پکڑ کر جب میں اوپر پہنچا تو نوشاد نے سامنے اپنی سے لکیر بناتے ہوئے کہا کہ ادھر دائیں طرف بحرالکاہل ہے اور وہ بائیں طرف بحرہند ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ لکیر نقشے پر تو کھینچی جا سکتی ہے مگر اتنے وسیع و عریض سمندر کے درمیان محض انگلی سے کھینچی گئی لکیر سے تو کام نہیں چلے گا۔ سامنے ایک ایسا نیلگوں وسیع سمندر تھا جس کے درمیان نہ کوئی لکیر تھی اور نہ کوئی حد بندی، حتیٰ کہ اس کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی۔ اس بلندی سے بے حد و حساب وسعت والے سمندر پر نظر پڑی تو منیر نیازی کا شعر یاد آیا :
چار چپ چیزیں ہیں‘ بحر و بر‘ فلک اور کوہسار
دل دہل جاتا ہے ان خالی جگہوں کے سامنے
ایمانداری کی بات ہے میرا تو دل ہی دہل گیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں