اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قرضوں کی دلدل

آئی ایم ایف کی جانب سے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی آخری ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط کا ملنا ان حالات میں معیشت کیلئے خوش آئند سہی کہ اس سے زرِمبادلہ کے ذخائر کو تقویت ملے گی‘ مگر قرض معیشت کیلئے پائیدار بنیاد نہیں بن سکتے۔ جہاں تک ملکِ عزیز کے قرضوں کی بات ہے تو یہ پہلے ہی خطرے کے نشان سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اس وقت ملکی قرضے جی ڈی پی کے تقریباً 75 فیصد کے قریب پہنچ چکے ہیں‘ جبکہ قانون کی رُو سے قرضوں کا حجم 57.5 فیصد تک ہونا چاہیے۔مگر یہ سلسلہ یہاں رکتا ہوا بھی نظر نہیں آرہا کیونکہ قرضوں پر انحصار بڑھتا جارہا ہے‘ہر حکومت اس میں بڑھ چڑھ کرحصہ ڈالتی ہے۔انوار الحق کاکڑ کی نگران حکومت ہی کو لیجئے‘ یکم جولائی 2013ء سے 19جنوری 2024ء تک اس عبوری حکومت نے بینکوں سے 4000ار ب روپے قرض لیے‘ یوں قرض لینے کا ایک ریکارڈ قائم کیا۔حکومتی سطح پر قرض لینے کی یہ روش پریشان کن ہے کہ عوام کا پیٹ کاٹ کر یا دیگر وسائل سے جو کچھ محصولات کی مد میں اکٹھا ہوتا ہے وہ قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے بھی کافی نہیں ہوتا‘ اور سود یا واجبات کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لیے جاتے ہیں۔گزشتہ برس سے ہماری معیشت کئی بار اس سطح تک آئی ہے کہ قرض نہ ملے تو ڈیفالٹ سے بچنا ممکن نہ رہے۔پائیدار معیشت کے یہ اطوار نہیں ہوتے۔ معاشی استحکام کیلئے قرضوں کے بوجھ سے نکلنا اور خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اس کیلئے فوری طور پرغیر ضروری حکومتی اخراجات کو ختم کرنا ہو گا۔ کفایت شعاری جب تک خلوص کے ساتھ شروع نہیں کی جاتی قومی اخراجات میں ضروری حد تک کمی ممکن نہیں۔ اس کیساتھ قومی پیداوار کو بڑھانا ہو گا۔ صنعتکاری اس میں معاون ثابت ہو سکتی ہے مگر پاکستان کے پاس ایسے قدرتی وسائل بھی ہیں جنہیں بروئے کار لاکر قومی دولت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ معدنی وسائل اور پاکستان کا جغرافیہ بھی ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ ہمیں علاقائی تجارت میں اپنا حصہ بڑھانا چاہیے‘ ہمسایہ ممالک کو برآمدات میں اضافے کی خاصی گنجائش ہے‘ مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب ملک میں صنعتی پیداوار ہو۔ پاکستان نوجوان اکثریتی آبادی والا ملک ہے۔ اس نسلِ نو پر تھوڑی محنت کر لی جائے اور انہیں ہنر سکھائے جائیں تو بیرونِ ملک کام کے مواقع حاصل کر سکتے ہیں۔ جدید دور میں نوجوان گھروں میں بیٹھ کر فری لانسنگ سے بھی کافی کما لیتے ہیں۔ یہ دولت اکٹھی ہو گی تو قومی دولت میں خاصے اضافے کا سبب بنے گی۔ یہ چھوٹے چھوٹے قدم مل کر ہماری معیشت کیلئے بڑی چھلانگ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ اس کیلئے کوئی قائدانہ کردار ادا کرے۔ بظاہر یہ ایک بڑا معرکہ معلوم ہوتا ہے مگر ہمت کریں اور پختہ ارادے سے قدم اٹھائیں تو منزل ایسی دور بھی نہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ ہی سے کچھ سیکھ لینا چاہیے اور اس میں آئی ایم ایف سے قرضوں کا باب خاصا عبرتناک ہے۔ ہمارا اور عالمی مالیاتی ادارے کا ساتھ 60 ء کی دہائی سے شروع ہوا‘ مگر پون صدی کے قریب اس قرض داری و قرض خواہی کا نتیجہ کیا ہے؟ معاشی احتیا ج بتدریج بڑھتی چلی گئی ہے۔آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں پاکستان کا مجموعی قرضہ 6800 ارب روپے کے لگ بھگ تھا‘ جورواں سال 8200 ارب روپے تک پہنچ جائے گا‘ جبکہ آئندہ مالی سال یہ 9220 ارب روپے سے بھی بڑھ سکتا ہے۔اس وقت پاکستان سات ارب 61کروڑ ڈالر سے زائد کے ساتھ آئی ایم ایف کا پانچواں بڑا مقروض ملک ہے۔ ملکی قرضوں میں اضافہ ہو گا تو سود کی ادائیگی اور قرض کی قسطوں میں بھی اضافہ ہو گا‘ جس کیلئے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ اس طرح قرضوں کا شیطانی چکر ہماری معیشت کیلئے جاں لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام ملک کو درپیش معاشی مسائل کا حل نہیں۔ قرضوں کے اس دلدل سے نکلنے کیلئے ہمیں اپنے دستیاب وسائل اور حکمت کو بروئے کار لانا ہو گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement