سیاسی ڈائیلاگ‘ مسائل کا حل
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوری انداز میں احتجاج کرنا اپوزیشن کا حق لیکن عوامی مسائل کے حل کے لیے کام کرنا ان کا فرض ہے۔ بجٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میں اپوزیشن اور حکومت کو تجویز دوں گا کہ اپوزیشن کا بھی اس میں اِن پٹ ہونا چاہیے‘ جب ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے تو شاید اپوزیشن اپنی ذمہ داری بھول گئی ہے‘ اگر غربت اور مہنگائی جیسے ملکی مسائل کا حل نکالنا ہے تو سیاسی پراسیس اور ڈائیلاگ کے بغیر یہ ناممکن ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے قومی اسمبلی کے فلور پر سیاسی مفاہمت اور حکومت اور اپوزیشن کے مل کر ساتھ چلنے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے‘ تمام طبقہ ہائے فکر کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا جا چکا اور مسلسل کیا جا رہا ہے کہ سیاسی مسائل جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ کوئی ایک جماعت ملک کو اس بھنور سے نہیں نکال سکتی‘ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آنا اور اپنی قوتوں کو مجتمع کرنا پڑے گا۔ گزشتہ ماہ وزیراعظم کے دورۂ کراچی کے موقع پر تاجروں نے معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام پر زور دیا تھا۔ گو کہ سیاسی جماعتیں بھی مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرتی رہتی ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بات چیت کی یہ دعوت اتمامِ حجت کے طور پر ہی دی جاتی ہے‘ قومی مسائل کے حل کی مثبت کوشش کے طور پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران متعدد بار مذاکرات کی بازگشت سنائی دینے کے باوجود ابھی تک کسی ایک فریق کی جانب سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ سیاسی ہم آہنگی کے بحران کا نتیجہ یہ ہے کہ معیشت سمیت سبھی اہم قومی معاملات بد نظمی کا شکار ہیں اور حکومت نجی شعبے اور سرمایہ کاروں کو وہ اعتماد‘ حوصلہ اور تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے جس سے معیشت کو ایڑ لگائی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی معیشت میں سرمایہ سکڑتا جا رہا ہے اور سیاسی تنائو ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔ سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کے معاشی و سماجی مسائل وسیع تر سیاسی مفاہمت کے متقاضی ہیں۔ سیاسی انتشار کو جس قدر جلد ختم کیا جائے گا‘ ملکی مسائل کے حل میں اتنی ہی آسانی ہو گی۔ حکومت جو ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کی بنیادی ذمہ دار ہے‘ کو اس حوالے سے پہل کرنی چاہیے اور پیشِ نظر یہ امر رکھنا چاہیے کہ اگر سیاسی قیادت آپسی تنائو اور سیاسی حدت میں کمی نہ لا سکی تو یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا؟ یقینا سماجی انتشار اور معاشی انحطاط میں مزید اضافہ ہو گا‘ لہٰذا مسائل کا حل سیاسی افہام و تفہیم ہی میں ہے‘اور اس میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔ فارسی کا مقولہ ہے کہ ہر چہ دانا کند‘ کند ناداں لیک بعد از خرابی بسیار‘ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ خرابیٔ بسیار سے پیشتر ہی وہ راہ اختیار کی جائے جو مسائل کے حل کی طرف جاتی ہے اور بیان بازی سے نکل کر اب اپنے عمل سے اپنی سنجیدگی ظاہر کی جائے۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے مابین مفاہمت میں بظاہر جو سب سے بڑی رکاوٹ نظر آتی ہے وہ عام انتخابات کے نتائج ہیں‘ جنہیں اپوزیشن دھاندلی زدہ قرار دیتی ہے۔ حکومت اس مسئلے کو ایک پارلیمانی کمیشن کے ذریعے منصفانہ طور پر حل کر کے سیاسی مفاہمت کا آغاز کر سکتی ہے۔ اس اقدام سے باہمی تعاون کی مزید راہیں بھی ہویدا ہوں گی اور حکومت کو ریاستی نظم کو ہموار رکھنے میں بھی سہولت میسر آئے گی۔ اگر سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں تو آئندہ بجٹ میں بھی عوام کے لیے ریلیف کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی ڈائیلاگ کی جو اپیل کی ہے وہ ایک صائب اور برمحل تجویز ہے‘ تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا مثبت جواب دینا چاہیے کیونکہ ملک و قوم کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کا یہی واحد حل ہے۔