اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

اضافی تنخواہیں اور اعزازیے

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ قومی خزانے کی ایک ایک پائی سوچ سمجھ کر خرچ کی جائے لیکن لگتا ہے کہ حکمران اور سرکاری افسران خود کو اس قومی ذمہ داری سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران گیارہ وفاقی اداروں کے افسران و ملازمین کو اعزازی تنخواہ کی مد میں ایک ارب 81کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ 40کروڑ روپے سے زائد اعزازی تنخواہ صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹ کے ملازمین کو دی گئی۔ پاکستان جیسا ملک‘ جو قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے سرکاری ملازمین کے شاہانہ اخراجات اور اربوں روپے کے اعزازیے برداشت نہیں کر سکتا۔ حکمرانوں کے اللے تللے بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ نوازشات سراسر قومی خزانے کا ضیاع شمار ہوں گی ۔ملک کے معاشی حالات کے پیشِ نظر اخراجات میں کفایت شعاری کی ضرورت ہے اور اس میں دیگر اقسام کے حکومتی اخراجات کیساتھ ساتھ یہ اعزازی تنخواہیں بھی شامل ہونی چاہئیں۔اس کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ سرکاری ملازمین کی کارکردگی کی بہتری پر توجہ دے اور اس سلسلے میں اگر کوئی تکنیکی رکاوٹیں ہیں تو انہیں دور کرنے پر اخراجات کرے۔ سرکاری شعبوں کی تکنیکی سہولیات اور ملازمین کی تربیت پر کام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ سرکاری ملازمین کو انہی کاموں کی انجام دہی پر اضافی تنخواہیں دینے کی ‘ جو اُن کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں