واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا بہت اندوہناک حادثہ ہے۔ اس واقعہ میں حضور اکرمﷺ کے نواسے سیّدنا حسین بن علی ؓ اور ان کے اہلِ بیت ظلم و ستم کے ساتھ شہید کیے گئے اور خاندان کی خواتین کو کوفہ اور دمشق کے بازاروں میں گھمایا گیا۔ پھر عبیداللہ بن زیاد اور یزید کے درباروں میں انہیں پیش کیا گیا۔ اسلامی تاریخ میں یہ ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کا افسوس تاقیامت ہوتا رہے گا۔ سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما نبی اکرمﷺ کے محبوب ترین شہزادے تھے۔ آپﷺ نے ان دونوں کو جنت کے پھول اور اہلِ جنت کے نوجوانوں کے رہنما قرار دیا۔ ان کی والدہ‘ اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کو سیّدۃ نساء اھل الجنہ قرار دیا۔ آپﷺ کے اس پیارے شہزادے کو جس ظلم و ستم کے ساتھ شہید کیا گیا اس کا کوئی جواز نہ دنیا میں پیش کیا جا سکتا ہے نہ آخرت میں قبول ہو گا۔ ظالم اپنے ظلم کا بدلہ پائیں گے اور حق کی خاطر کھڑے ہونے کے نتیجے میں ظلم کی بھینٹ چڑھنے والے مظلوم بھی اپنا حق وصول کریں گے۔
اسلام محض عبادات کا مذہب نہیں‘ یہ مکمل دین ہے‘ یعنی اللہ کا دیا ہوا ایک نظامِ زندگی ہے۔ نبی اکرمﷺ پر اللہ نے اپنی نعمتیں تمام کر دیں۔ آپﷺ کو خاتم النبیین قرار دیا اور آپ کی امت کو تمام سابقہ امتوں پر فوقیت و فضیلت عطا فرمائی۔ نبی اکرمﷺ نے نبوت کے بعد مکہ میں تیرہ سال اور پھر ہجرت کے بعد مدینہ میں دس سال گزارے۔ مکی دور انتہائی مشکلات و آزمائشوں سے بھرا ہوا تھا۔ اُس دور میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ مدنی دور میں بھی مشکلات تو درپیش رہیں‘ مگر یہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آ چکی تھی۔ اس اسلامی ریاست نے اپنے دفاع اور عدل و انصاف کے نفاذ کے لیے قوت استعمال کی اور دنیا میں پہلی بار ایک ایسی ریاست وجود میں آئی جس میں آمریت و ملوکیت کا تصور ختم ہو گیا۔
ہر نظام کے اندر اصحابِ اقتدار کا ہونا لازمی ہے‘ مگر ہر نظریے کے اپنے اپنے تصورات اور معمولات ہوتے ہیں۔ اسلام میں مشاورت ہے نہ کہ ڈکٹیٹرشپ۔ حکمرانی کے منصب پر کسی شخص کے آنے کی شرائط میں اولین چیز یہ ہے کہ اس کے اندر صلاحیت اور صالحیت ہو۔ حضور اکرمﷺ کو تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود منصبِ نبوت پر فائز کیا تھا اور اسی منصب کی وجہ سے آپﷺ اپنی ریاست کے حکمران بھی تھے۔ آپﷺ کے بعد تمام خلفائے راشدین‘ حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر‘ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی درج بالا صفات ہی کی وجہ سے صحابہ نے انہیں اپنا حکمران منتخب کیا تھا۔ ان میں سے کسی نے بھی زور زبردستی سے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا تھا۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا :میری امت میں خلافت تیس (30) سال تک رہے گی‘ پھر ملوکیت کا دور شروع ہوجائے گا۔ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حدیث کے راوی حضرت سفینہؓ سے سعید بن جمھان نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے چاروں خلفائے راشدین کے دورِ خلافت کو الگ الگ بیان کیا اور فرمایا یہ تیس سال پورے بنتے ہیں۔ سعید نے کہا: مگر بنو امیہ تو سمجھتے ہیں کہ وہ بھی خلفا ہیں۔ حضرت سفینہؓ نے فرمایا :یہ غلط کہتے ہیں۔ یہ تو بدترین حکمران اور ملوکیت کے مظہر ہیں (سنن ترمذی)۔ علامہ علقمیؒ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے شیخ نے فرمایا کہ ان تیس سالوں میں چاروں خلفائے راشدین کے دورِ خلافت کے ساتھ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے دورِ خلافت (چھ ماہ)کو بھی شامل کیا جائے تو پورے تیس سال بن جاتے ہیں۔ (عون المعبود‘ جلد دہم‘ ص: 164) علقمی نے محدث امام نوویؒ کی کتاب تہذیب الاسماء کے حوالے سے ان کی رائے بھی اس قول کی تصدیق میں نقل کی ہے کہ حضرت حسنؓ کی مصالحت پر تیس سال کا عرصہ مکمل ہوتا ہے۔ آنحضورﷺ کے ارشاد کی روشنی میں حضرت حسنؓ اور حضرت معاویہؓ کی اس مصالحت کے وقت خلافت کو تیس سال مکمل ہوگئے تھے۔ اس کے بعد آنحضورﷺ کی اس پیش گوئی کے مطابق خلافت کی جگہ ملوکیت کا دور آنا تھا‘ سو وہ آگیا۔ بادشاہ ہونے کے باوجود حضرت معاویہؓ صحابیِ رسول تھے اور عادل تھے۔ ان کی بادشاہت کو صحابہ کرامؓ نے عمومی طور پر قبول کیا‘ تاہم جب انہوں نے اپنی ملوکیت کو موروثی بنانا چاہا تو صحابہ کرامؓ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تمام معروف صحابہ تو مزاحمت پر ڈٹے رہے جبکہ کچھ دیگر نے اتمامِ حجت کے بعد خاموشی اختیار فرمالی مگر اس فیصلے پر صاد نہیں کیا۔
یزید کو حکمران تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں کی فہرست میں صحابہ کی بڑی تعداد کے نام آتے ہیں۔ انصار و مہاجرین کی اکثریت نے یزید کی حکمرانی پر نکیر کی۔ ان میں حضرت عبد اللہ بن زبیر‘ حضرت عبد اللہ بن عمر‘ حضرت عبد اللہ بن عباس‘ حضرت حسین بن علی‘ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر‘ حضرت احنف بن قیس اور حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہم کے اسماے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یزید اپنی ذاتی حیثیت اور کردار کے لحاظ سے بھی خلافت کا کسی صورت اہل نہ تھا اور پھر اس کے تقرر اور نامزدگی کا طریقہ بھی موروثی بادشاہت کا آغاز واثبات اور مشاورت و اہلیت کا انکار تھا۔ اس وجہ سے سیدنا امام حسینؓ نے فیصلہ کیا کہ نظامِ اسلام کے ایک اہم ترین رکن کے خاتمے پر خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے جدوجہد کا راستہ اپنایا جائے۔ آپؓ نے بہت بڑی قربانی دی مگر یہ اصول کہ اسلام میں نظامِ حکومت شورائی اور مبنی براہلیت ہے‘ زندہ کر دیا۔
یزید کے حکمران بننے پر جب اہلِ کوفہ نے حضرت حسینؓ کو خطوط لکھ کر وعدہ کیا کہ آپ ان کے پاس آئیں تو وہ آپ کی بیعت کریں گے‘ تو آپؓ حجاز سے عراق کی طرف روانہ ہوئے۔ کربلا میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ حالات بدل چکے ہیں۔ اہلِ کوفہ عراق کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کے جور و ستم سے ڈر کر اپنے عہد سے پھر گئے۔ یہاں یزیدی فوجوں نے آپؓ کو روک لیا اور مطالبہ کیا کہ آپ یزید کی بیعت کریں۔ آپؓ نے فرمایا: ''میں ایک نااہل کی بیعت نہیں کر سکتا۔اگر مجھے دعوت دینے والے اپنے عہد سے پھر چکے ہیں تو مجھے چھوڑ دو کہ میں واپس چلا جائوں‘‘۔ یزیدی فوجوں کے کمانڈر نے کہا کہ یہ ممکن نہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ پھر مجھے چھوڑو کہ میں یزید کے پاس جا کر خود اس سے بات کروں۔ اس نے کہا کہ ہمیں اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ صورتحال یہ تھی کہ حضرت حسینؓ سے زبردستی یزید کی بیعت لینے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا تھا۔ آپؓ نے اس سے یکسر انکار کیا۔ اس کے نتیجے میں یزیدی فوجوں نے آپ پر حملہ کیا۔ آپؓ کے ساتھ خواتین اور بچیوں کے علاوہ صرف 72 افراد تھے۔ ایک بڑی فوج کے مقابلے پر حضرت حسینؓ ڈٹ گئے اور اپنی جان‘ اپنے اہل و عیال اور دوستوں کی قربانی دے کر یہ ثابت کر دیا کہ اسلام میں جبر اور زبردستی سے نااہل کو اہل ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعہ اپنے اندر بڑے سبق لیے ہوئے ہے۔ اس واقعے کو مختلف طبقات نے اپنے اپنے طور برتا اور اصل واقعات اور ان کی روح کو پس پشت ڈال دیا۔
امام ابن تیمیہؒ نے فرمایا کہ واقعہ کربلا پر ایک گروہ یزید کو کافر قرار دیتا اور اس پر لعنت اور سب و شتم کرتا ہے مگر ہمارا مؤقف یہ ہے کہ گالم گلوچ کرنا اور کسی بھی کلمہ پڑھنے والے کی تکفیر کرنا درست نہیں۔ اسی طرح ایک ظالم اور نااہل کی حمایت کرنا بھی کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی موقف جو امام ابن تیمیہؒ نے بیان کیا ہے‘ عدل و انصاف کا موقف ہے۔ امام حسینؓ حق پر تھے اور یزید باطل کا علمبردار تھا۔
سر داد نداد دست درِ دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ