"KMK" (space) message & send to 7575

دنیا کے سب سے مہربان جج سے ملاقات… (2)

میں نے فرینک کیپریو کو بتایا کہ وہ پاکستان میں بہت مقبول ہیں اور اس کا اندازہ مجھے اس سے ہوتا ہے کہ میرے چار میں سے تین بچے ان کے چاہنے والے ہیں۔ رہ گئی امریکہ والی بیٹی‘ تو اُس سے اس سلسلے میں کوئی امید رکھنا ہی فضول ہے کہ وہ 2005ء سے 2011ء تک آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کراچی میں زیرِ تعلیم رہی مگر عالم یہ تھا کہ اسے مسلسل چودہ سال سندھ کے گورنر رہنے والے عشرت العباد کا نام تک معلوم نہ تھا۔ اس لیے اُس سے تو اس بات کا قطعاً گلہ نہیں کیا جا سکتا کہ اسے فرینک کیپریو کے بارے میں علم نہیں۔
میں نے انہیں بتایا کہ پراویڈنس کا سُن کر نہ صرف میرے بیٹے بلکہ ہیوسٹن سے ایک دوست نے بھی رہوڈ آئی لینڈ میں موجودگی کا سنا تو اس نے بھی چھوٹتے ہی صرف اتنا کہا کہ میں ''جج صاحب‘‘ کو ضرور ملوں۔ میں نے فرینک کیپریو کو بتایا کہ گزشتہ دسمبر میں جب میں نے اپنے کالم میں آپ سے متوقع طور پر ملنے کا ذکر کیا تو میرے کئی قارئین نے کمنٹس سیکشن میں اس متوقع ملاقات کے بارے میں کافی گرمجوشی‘ محبت اور خوشی کا اظہار کیا۔ میں نے خاص طور پر اپنے ایک کا ذکر کیا کہ انہوں نے تو تصویر کی فرمائش بھی کی تھی۔ تصویر کا سنتے ہی کیپریو نے مجھے کہا کہ میں ان کے ساتھ جتنی جی چاہے تصاویر بنا سکتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ڈیوڈ کو کہا کہ وہ ان کی تصویریں لے آئے۔ ڈیوڈ ان کی دو رنگین تصاویر لے آیا۔ کیپریو نے میرے نام کے سپیلنگ پوچھے اور اپنی تصویر پر میرے لیے دو سطریں لکھ کر دستخط کر دیے۔ پھر پوچھا: آپ کے بیٹے کا کیا نام ہے؟ میں نے بتایا تو انہوں نے پہلے تو تصویر پر اس کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہوئے دو تین جملے لکھے اور پھر نیچے دستخط کر دیے۔ پھر مجھ سے میرے بیٹے کے بارے میں پوچھنے لگے کہ کیا کرتا ہے اور عمر کیا ہے؟ مجھ سے اس کا نام دوبارہ پوچھ کر کہنے لگے: تو آپ یہاں اس کی فرمائش پر آئے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں‘ آیا تو میں خود اپنی خواہش کی تکمیل کی غرض سے ہوں مگر ہاں! اس نے بھی تاکید کی تھی۔ مسکرا کر کہنے لگے: اس محبت کیلئے میرا ایک چھوٹا سا وڈیو پیغام اس کے لیے ریکارڈ کر لیں۔ مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی ایک نرم دل‘ محبت کرنے والے‘ خیال رکھنے والے اور دلجوئی کے جذبے سے مالا مال انسان ہیں۔ فرینک کیپریو نے اپنے پیغام میں کہا ''اسد! تمہارے والد میرے پاس ہیں اور انہوں نے مجھے مل کر مجھے عزت سے نوازا ہے۔ انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں بھی ان سے ملنے کو اپنی عزت افزائی سمجھتا ہوں۔ انہوں نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا‘ تم اپنا کام جاری رکھو اور کامیاب ہو جائو‘‘۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں اپنی زندگی میں بہت سے نامور اور مشہور لوگوں سے ملا ہوں۔ اب نام کیا لکھنے‘ لیکن ان میں سے کئی لوگوں سے مل کر تو ایسی مایوسی کہ دوبارہ کبھی نہ ملنے کا ارادہ تو کیا لیکن ملال اس بات پر بھی رہا کہ آخر انہیں ملے ہی کیوں تھے؟ کئی لوگوں سے مل کر از حد خوشی بھی ہوئی لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ میں نے فرینک کیپریو سے کہیں کم شہرت اور ناموری کے حامل لوگوں میں بھی وہ انکسار‘ محبت‘ اپنائیت‘ عاجزی اور فروتنی نہیں دیکھی جو پراویڈنس کے اس عالمی شہرت یافتہ ریٹائرڈ جج میں دیکھی۔ حقیقی معنوں میں یہ ایک درویش سے ملاقات تھی۔
فرینک کیپریو نے بتایا کہ ان کی عدالت میں کئی پاکستانیوں کے کیس بھی آئے تھے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ پاکستان میں بھی بہت مقبول ہیں اور پاکستانی ان سے محبت کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کو شاید اندازہ نہیں کہ آپ پاکستان میں کتنے مقبول ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر موقع ملے تو کیا وہ پاکستان آنا قبول کریں گے؟ مسکرا کر کہنے لگے: جوانی میں تو شاید میں بلاتوقف ہاں کہہ دیتا لیکن اس عمر میں اب میں اتنا مضبوط اور بہادر نہیں رہا۔ میں یقینا اب بھی پاکستان جانا پسند کروں گا مگر مجھے یہ بتائو کہ وہاں سکیورٹی کی کیا صورتحال ہے؟ کیا وہاں میرا جانا محفوظ ہو گا‘ میں کئی بار دبئی‘ ابوظہبی اور دیگر عرب ریاستوں میں جا چکا ہوں تاہم دل چاہنے کے باوجود کبھی پاکستان نہیں جا سکا۔ اگر سکیورٹی کا مسئلہ نہ ہو تو میں اب بھی پاکستان جانا چاہوں گا۔ میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں یقینا سکیورٹی کے مسائل ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ آپ وہاں آئیں اور ہم لوگ آپ کو پاکستان میں حتی الامکان حد تک محفوظ سکیورٹی فراہم نہ کر سکیں۔ انہوں نے ساتھ بیٹھے اپنے بیٹے ڈیوڈ سے کہا کہ ان کو اپنا نمبر دے دو۔ پھر مجھ سے کہنے لگے: اگر آپ چاہیں تو اس سلسلے میں ڈیوڈ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ مجھے دنیا بھر سے مختلف اداروں اور کارپوریٹ سیکٹر کی جانب سے دعوت نامے ملتے رہتے ہیں‘ لیکن ستاسی سال کی عمر میں جبکہ میری صحت کے بھی کچھ مسائل ہیں‘ اب میرے لیے سفر کرنا اتنا آسان نہیں ہے مگر میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مجھے پاکستان جانا پڑا تو میں اسے اولین ترجیح دوں گا۔
وہ ایک بار پھر اٹھے اور میٹنگ روم سے متصل اپنے کمرے میں لے گئے۔ کمرے کی دوسری طرف ایک میز پر مزید کچھ ایوارڈز‘ شیلڈیں اور سووینیرز پڑے تھے۔ انہوں نے ایک لوحِ اعزاز کی طرف اشارہ کیا اور بتانے لگے کہ 1953ء میں مَیں نے ریاست رہوڈ آئی لینڈ کا کشتی کا چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور پہلوانی میں رہوڈ آئی لینڈ ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔ میں اسی شہر میں 1936ء میں پیدا ہوا‘ اسی شہر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر اس ریاست کے ہائر ایجوکیشن بورڈ کا چیئرمین رہا۔ میں نے اسی شہر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ سیاست میں حصہ لیا‘ بزنس کیا اور چیف جج رہا۔ میں نے دورانِ تعلیم اخبار بیچے‘ برتن دھوئے‘ جوتے پالش کیے اور اپنے باپ کی پیروی کرتے ہوئے دودھ کے ٹرک پر کام کیا۔
دودھ کے ٹرک پر اپنی ملازمت کا ذکر کرتے ہوئے کیپریو کہنے لگے: میرے والد نے امریکہ ہجرت کے بعد مزدوری کی‘ میری والدہ کے ساتھ ریڑھی پر سبزی اور پھل بیچے‘ سخت محنت کی‘ مگر اس دوران انہوں نے ہم تینوں بھائیوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ہمارے والد نے ہماری تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ وہ ایک باعمل آدمی تھے اور ہم نے ان سے بہت سیکھا ہے۔ دودھ کی کمپنی میں ملازمت کے دوران ادارے کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ جو لوگ دو ہفتے تک دودھ کی ادائیگی نہیں کریں گے‘ ان کو دودھ کی سپلائی روک دی جائے گی۔ میرے والد نے اپنی کمپنی کو صاف کہہ دیا کہ وہ ان لوگوں کا دودھ تو کسی بھی صورت میں دو ہفتے کی عدم ادائیگی پر نہیں روکے گا جن کے گھر میں بچے ہوں گے‘ خواہ مجھے نوکری سے فارغ کر دیں مگر مجھ سے یہ نہیں ہو سکے گا۔ کمپنی کو بالآخر میرے والد کی بات ماننا پڑی۔ یہی وہ تربیت تھی جس نے مجھے انسانی اقدار اور شرفِ انسانیت کا سبق سکھایا۔
اس دوران ڈیوڈ نے دو تین بار اندر آکر بتایا کہ انٹرویو والی ٹیم آ چکی ہے۔ کیپریو نے اٹھتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملایا اور پھر مجھے عدالتوں میں ججوں کی میز پر دھرے روایتی ہتھوڑے کی چھوٹی سی نقل دی‘ جس پر ان کا نام لکھا ہوا تھا۔ بوقتِ رخصت انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے ان سے مل کر کیسا لگا؟ میں نے کہا: مجھے ویسے ہی خوشی ہوئی جیسے کسی بچے کو اس کا پسند کا کھلونا ملنے پر ہو سکتی ہے۔ کیپریو مسکرائے اور کہنے لگے: اس بچے کو اپنے اندر زندہ رکھنا۔ میں نے ہنس کر کہا: جب اتنا عرصہ سنبھالے رکھا ہے تو اب بھلا باقی دن ہی کتنے رہ گئے ہیں؟
اٹلانٹا سے اعجاز نے فون پر پوچھا: کیا دنیا کے سب سے مہربان جج سے ملاقات ہوئی؟ میں نے کہا: جی ہو گئی۔ پوچھنے لگا: کسی نامہربان جج سے بھی ملنا چاہو گے ؟ میں نے کہا: بھلا یہ بھی کوئی مسئلہ ہے ؟ میں چار دن بعد پاکستان جا تو رہا ہوں۔ (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں