اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاسی جماعت پر پابندی ؟

حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے اعلان نے ملک کے سیاسی‘ قانونی اور جمہوریت پسند حلقوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ حکومت نے یہ فیصلہ اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے کیا ہے‘ تاہم حکومتی اتحادی جماعتوں کے ذمہ داران اس فیصلے سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے پابندی کے فیصلے کی مخالفت کا عندیہ دیا گیا ہے۔ حکومت کی دوسری اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے بھی یہی کہا گیا ہے کہ اس فیصلے پر انہیں اعتماد میں لیا گیا نہ ہی مشاورت کی گئی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کا بیان بھی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت میں ہے ۔ جماعت اسلا می کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے اقدام کو جمہوری اصولوں کے منافی قرار دے چکے ہیں۔ حکومت کے اس فیصلے کا سیاسی ردعمل تو ان بیانات سے واضح ہو جاتا ہے اوراگر قانونی اعتبار سے دیکھا جائے تو ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 17 میں جہاں شہری کو سیاسی جماعت بنانے یا اس کا رکن بننے کا حق دیا گیا ہے وہیں وفاقی حکومت کو یہ اختیار تفویض کیا گیا ہے کہ جب وفاقی حکومت یہ اعلان کر دے کہ کوئی سیاسی جماعت ایسے طریقے پر بنائی گئی ہے یا عمل کر رہی ہے جو پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ یا سالمیت کے لیے مضر ہے تو وفاقی حکومت مذکورہ اعلان سے پندرہ دن کے اندر معاملہ عدالت عظمیٰ کے حوالے کر دے گی‘ جس کا مذکورہ حوالے پر فیصلہ قطعی ہو گا۔مگر حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کے اعلان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب سپریم کورٹ کا فل بینچ اپنے اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو پارلیمانی جماعت قرار دے چکا ہے اور خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں قاعدے کے مطابق اس جماعت کو دینے کا حکم جاری کر چکا ہے۔ حکومت نے پی ٹی آئی پر جس وقت پابندی عائد کرنے کا معاملہ اٹھایاہے‘ ایسا لگتا ہے کہ اس کا محرک سیاسی ہے۔ملکی تاریخ سیاسی جماعتوں کے اختلافات سے بھری ہے مگر ایک دوسرے کو غیر قانونی قرار دینے کی روایت پیدا نہیں ہوئی۔ بظاہر یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے اقدام کی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے حمایت نہیں کی جارہی۔ سیاسی قائدین کو شاید اس امر کا اندازہ ہے کہ یہ ڈھکنا اٹھا دیا توملک میں جمہوریت کی بچی کھچی ساکھ بھی کھو دیں گے۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت‘ جو ایک صوبے کی بلا شرکت غیرے حکمران ہے اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اسے نمایاں حیثیت حاصل ہے‘ پر پابند ی عائد کردینے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نظر میں پاکستان کی سیاسی ساکھ اور ملک کے جمہوری نظام کا تماشا بنایا جائے۔ ایسا کرنے سے کیا نتیجہ برآمدہو گا وہ تو وقت آنے پر پتا چلے گا تاہم ایک بات واضح ہے کہ ملک میں سیاسی انتشارمیں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ یہ صورتحال اس ملک میں پیدا کرنے کے جتن کیے جارہے ہیں جسے معاشی استحکام کے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ مگر یاد رہنا چاہیے کہ معیشت خلا میں نمو نہیں پاتی نہ ہی سیاسی انتشار کے ماحول میں۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں قریب المرگ ہیں۔ ان حالات میں سیاسی دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ حکومت ہر اس اقدام سے پرہیز کرے جس سے انتشار کا امکان پیدا ہوتا ہو۔یہ حکومت کو قرضوں کے حصول اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ناگزیر ہے۔حیرت ہے کہ جس کام سے اجتناب کی سب سے زیادہ ضرورت حکومت کو ہے‘ وہی اس میں پیش پیش ہے۔ ضروری ہے کہ وقت کی نبض کو محسوس کیا جائے اور پھونک پھونک کر قدم رکھا جائے۔ یہ پاکستان کی سالمیت‘ معاشی استحکام اور سماجی امن کا ناگزیر تقاضا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں