اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

وزیراعظم کا خطاب

وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی سطح پر ناانصافیوں‘ المناکیوں اور جارحانہ پالیسیوں کی مذمت کی اور مہذب دنیا کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلایا کہ ایسی صورتحال میں خاموش تماشائی نہیں رہا جا سکتا۔ وزیراعظم نے غزہ میں سال بھر سے جاری وحشیانہ اسرائیلی یلغار کی کھل کر مذمت کی اور مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل اور آزاد وخود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی خاطر کوششیں تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم نے اسرائیل کی جانب سے نئے جارحانہ اقدامات بالخصوص لبنان پر جنگ مسلط کیے جانے کو مشرق وسطیٰ کی سلامتی کیلئے نئے خطرات سے تعبیر کیا اور عالمی برادری کو خبردارکیا کہ عالمی امن کیلئے اس کے خوفناک نتائج کا ادراک کیا جائے۔ وزیراعظم کی تقریر کا دوسرا اہم موضوع مسئلہ کشمیر‘ بھارتی جارحیت اور کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں تھا جس کا بھرپور احاطہ کیا گیا اور اقوام عالم کے سامنے مسئلہ کشمیر کی وکالت کا قومی فریضہ ادا کیا گیا۔ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے حالات وواقعات کے علاوہ بھارتی منصوبوں اور آنے والے وقتوں میں جموں وکشمیر کیلئے ممکنہ خطرات سے بھی دنیا کو آگاہ کیا۔ عالمی بدامنی اور انسانی جانوں کی تذلیل‘ ناانصافیوں اور محرومیوں کے اس منظر نامے کے بعد سب سے اہم مسئلہ جس کا دنیا کو اس وقت سامنا ہے وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہے جس کے پاکستان پر بھی غیر معمولی منفی اثرات ہیں۔ کاربن کے اخراج کی صورت میں عالمی ماحولیاتی مسائل پیدا کرنے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر مگر اس کے منفی اثرات پاکستان پر ڈھیروں ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی اس تقریر میں اُن مصدقہ اعداد وشمار کا حوالہ بھی دیا کہ کاربن کے عالمی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر دوسروں کی پیدا کردہ آلودگی اور ماحولیاتی تباہی کے اسباب کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ وزیراعظم نے عالمی قرض گیری کے پھندے اور مقروض ممالک کی ترقی کے امکانات پر اس کے اثرات کو بھی مناسب الفاظ میں دنیا کے سامنے پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ عالمی تجارت اور ٹیکنالوجی رجیم میں اصلاحات کر کے پسماندہ اور مقروض ممالک کیلئے بھی ترقی کرنے کی گنجائش پیدا کی جائے۔ اقوام متحدہ کے فورم پر بیان کیے ہوئے یہ خیالات عالمی امن‘ خوشحالی اور بنی نوع انسان کی ترقی کیلئے قابلِ عمل اور مفید مطلب نکات ہیں تاہم یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ جنرل اسمبلی جیسا اقوام عالم کا سب سے بڑا سالانہ اکٹھ محض نشستن‘ گفتن اور برخاستن بن کر رہ گیا ہے۔ عالمی پالیسیوں پر اس فورم میں پیش کیے گئے خیالات کا بہت کم اثر دکھائی دیتا ہے۔ بالخصوص عالمی امن اور انصاف کو یقینی بنانے اور پسماندہ اقوام کے بچاؤ کیلئے جنرل اسمبلی میں پیش کیے گئے حل پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ہٹ دھرمی اقوام متحدہ کی حیثیت پر بھی منفی انداز سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ عالمی امن کیلئے جو کوششیں کرتی ہے عملی طور پر ان کے نتائج کم ہی سامنے آتے ہیں۔ غزہ کی صورتحال اس امر کا تازہ ترین اور بہت واضح ثبوت ہے کہ اقوام متحدہ مظلوم فلسطینیوں کے تحفظ میں کس طرح غیر فعال ثابت ہو رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اس کی دوسری بڑی مثال ہے جہاں کے لوگوں کو حقِ خودارادیت فراہم کرنے کیلئے استصوابِ رائے کی قراردادیں نصف صدی سے عملدرآمد کی منتظر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام متحدہ اب بھی اقوام عالم کیلئے اہم ترین عالمی فورم ہے اور دنیا کو درپیش مسائل کے حل میں خاطر خواہ مدد فراہم کر سکتا ہے‘ مگر یہ پیشرفت اسی صورت ممکن ہے جب اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملدرآمد سبھی ممالک کیلئے لازمی قرار پائے۔ اگر طاقتور ممالک خود کو عالمی اصول و ضوابط سے مستثنیٰ سمجھتے رہیں گے تو عالمی سطح پر بہتری کا امکان نہ ہونے کے برابر ہو گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں