ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کے لیے ہم سب برقی اور مواصلاتی آلات استعمال کرتے ہیں۔ سوچیں اگر یہ آلات ہاتھ میں پکڑے پکڑے پھٹ جائیں یا ان میں دھماکا ہو جائے تو یہ کتنا خطرناک ہوگا۔ یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ مواصلاتی آلات بنانے والی تمام کمپنیاں یہ کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے تیار کردہ آلات کو محفوظ بنائیں‘ لیکن بعض اوقات ہیکنگ یا سائبر حملوں کی وجہ سے یہ آلات عام صارفین کے لیے وبالِ جان بھی بن سکتے ہیں۔ لبنان میں حال ہی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے کہ تمام ٹیکنالوجی استعمال کنندہ اس سوچ میں پڑ گئے کہ وہ مواصلاتی آلات کی صورت میں ہاتھوں میں بم لیے تو نہیں گھوم رہے؟ کیا کوئی سر پھرا ان آلات کو ہمارے ہاتھوں میں دھماکے سے اڑا تو نہیں دے گا؟ کیا ہمارے آلات محفوظ ہیں؟ ایسے اور بھی بہت سے سوالات ان کے ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں۔ کسی شدت پسند گروہ کی طرف سے ایسی حرکت کی سمجھ بھی آتی ہے‘ لیکن اگر کوئی ملک ہی اس کام میں ملوث ہو جائے تو عالمی امن کو کس قدر خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
اس دنیا کے نقشے پر بہت سے ممالک‘ تنظیمیں اور گروہ ایسے ہیں جن سے دنیا کا امن برداشت نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ ایسے ایسے منصوبے بناتے رہتے ہیں جن سے قتل و غارت گری بڑھتی ہے اور قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ اسرائیل اور بھارت مسلم دشمنی کے حوالے سے سرفہرست ہیں۔ ان کی سفاکی کا شکار صرف فلسطین اور کشمیر ہی نہیں بلکہ اردگرد موجود دیگر مسلم ممالک بھی اُن کی دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔ مسلم ممالک چونکہ اس وقت متحد نہیں ہیں اس لیے کوئی مسلم ملک تنہا اسرائیل اور بھارت کو نہ ہی سفارتی محاذ پر اور نہ ہی میدانِ جنگ میں ٹکر دینے کے لیے سنجیدہ نظر آتا ہے۔ بیشتر ممالک میں بادشاہت کا نظام ہے‘ جہاں بادشاہت نہیں وہاں ڈکٹیٹرز بیٹھے ہیں۔ جمہوریت نام کی چیز ان ممالک میں موجود نہیں ‘اس لیے مل کر ایک مؤثر سفارتی جواب دینے سے قاصر ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی طرف دیکھیں تو اسرائیل غزہ میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور مغربی طاقتیں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ ظلم کی مذمت نہ کرنے والا بھی ظالم تصور کیا جاتا ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو جس طرح شہید کیا گیا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ حماس نے اس کا الزام براہ راست اسرائیل پر لگایا۔ پہلے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی ہیلی کاپٹر کریش میں دنیا سے رخصت ہوئے‘ بعد ازاں نئے ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران میں موجود حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کردیا گیا۔ اسرائیل اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی خود کو دفاعی اور معاشی طور پر مضبوط بنا رہا ہے۔ اسرائیل کا بنایا ہوا‘ جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والا سافٹ ویئر دنیا بھر میں استعمال ہو رہا ہے۔ دوسری طرف غزہ کے عوام مفلوک الحال ہیں۔ ایک کلاشنکوف سے کہاں جنگی جہاز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی غزہ کے عوام جذبۂ ایمانی کے ساتھ اسرائیل کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہم صرف ٹائر جلا کر‘ دھرنا دے کر یا اسرائیل کے خلاف نعرے لگا کر اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
گزشتہ برس سات اکتوبر سے لے کر اب تک41500 سے زائد فلسطینی اسرائیلی مظالم کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار چکے ہیں‘ جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں‘ اس میں سویلینز‘ بچوں‘ خواتین‘ ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا ‘لیکن اسرائیل نے جو کچھ غزہ میں کیا ہے وہ اب تک کی جنگوں میں بدترین نمونہ ہے۔ نہتے عوام پر ہر روز بمباری اور اس میں جان بوجھ کر سکولوں‘ ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل غزہ کو قبرستان میں تبدیل کر چکا ہے لیکن مغربی حکومتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ مغربی ممالک کے عوام نے غزہ کے باسیوں کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی ہیں لیکن اُن ممالک کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں۔ مغربی ممالک ایک ایسے ملک کاساتھ کیسے دے سکتے ہیں‘ جس کی خارجہ پالیسی ہی دہشت گردی پر مبنی ہے‘ جس کے ہمسائے اس کے شر سے محفوظ نہیں‘ جس نے فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے انہیں اپنی ہی سرزمین پر مہاجر بنا دیا ہے۔
اس حوالے سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ اسرائیلی مظالم کا دائرہ غزہ یا فلسطین ہی تک محدود نہیں‘ اب وہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی طرف سے لبنان کے مختلف شہروں پر میزائل برسائے گئے ہیں جن سے 700سے زائد لبنانی شہری شہید اور 1800سے زائد زخمی ہوئے۔ اس سے غزہ کے بعد اسرائیلی مظالم کی وجہ سے لبنان میں بھی انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔لبنان میں جاری کشیدگی پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ لبنان میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت پر تشویش ہے۔فریقین سے کہتا ہوں ایک قدم پیچھے ہٹیں‘ سفارتی کوششوں کو موقع دیں‘ عام شہریوں کے تحفظ کے لیے دونوں فریق اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ اسرائیل اس سے پہلے بھی کبھی اقوام متحدہ کے کسی حکم نامے اور قرارداد کو خاطر میں نہیں لایا‘ اب بھی وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی بات نہیں سنے گا۔ لبنان پر حالیہ حملوں سے قبل اسرائیل نے پیجر اور واکی ٹاکی کو سبوتاژکرکے لبنان کے لوگوں کو نشانہ بنایا۔ پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد دنیا بھر میں مواصلاتی آلات کے محفوظ اور غیر محفوظ ہونے کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔ آپ خود سوچیں‘ آج کل ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے‘ اگر کسی ملک میں کوئی مخالف ان ڈیوائسز میں بم نصب کروا کے انہیں دھماکے سے اُڑا دے تو کتنی خوفناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ یعنی ہم لوگ موبائل فون کی صورت میں اپنی جیبوں میں بم لیے گھوم رہے ہیں! اسرائیل کا جب دل کرے گا کسی کا بھی فون بم میں تبدیل کرکے دھماکا کردے گا‘ جیسا کہ اُس نے لبنان اور شام میں کیا۔
لبنان میں لوگ اب ایک انجانے خوف کا شکار ہیں۔ وہ اپنے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ سے بھی خوف کھا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ عالمی نشریاتی اداروں نے اُس ملک میں کام کرنے والے اپنے صحافیوں کو مواصلاتی آلات استعمال کرنے سے منع کیا ہے۔ لبنان کی تنظیم حزب اللہ ایران کی بھی حمایت یافتہ ہے‘ جو اسرائیل کو اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتی ہے۔حزب اللہ نے ان حملوں کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے۔ حزب اللہ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اسرائیل اپنے اس حریف سے سخت پریشان ہے۔ حزب اللہ کے پاس جدید اسلحہ اور بارود کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں جنگجو بھی ہیں۔حزب اللہ پر اسرائیل کی طرف سے حملوں کے بعد لبنان اور اسرائیل کے مابین جنگ میں تیزی آچکی ہے۔ اسرائیل مصلحتاً نئے نئے جنگی محاذ کھول رہا ہے جس کا مقصد جنگ کو پھیلانا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں عرب ریاستوں کے درمیان اسرائیل کا وجود ایک ناسور سے کم نہیں۔فلسطینی مسلما ن گزشتہ سات دہائیوں سے اسرائیل کے ہاتھوں شہیدہو رہے ہیں۔ امریکہ اور مغر بی ریاستیں جو انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے بڑی ''حساس‘‘ ہیں‘ فلسطین میں بچوں‘ عورتوں اوربوڑھوں کی ہلاکت پر نہ صرف دم سادھے بیٹھی ہیں بلکہ اسرائیل کو اسلحہ کی سپلا ئی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔