دعویٰ تو کرنا ہی نہیں چاہیے اور جب علم محدود ہو تو پھر مزید محتاط رہنا چاہیے۔ اس طالب علم کا علم محدود تر ہے اور جو ہے وہ بھی خام ہے۔ سو دعویٰ تو رہا ایک طرف‘ بس ذاتی خیال ہے جس کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ فارسی شاعری اپنی غنائیت کے حوالے سے شاید دنیا کی سب سے شاندار شاعری ہے۔ یہ عاجز چونکہ فارسی زبان سے نابلد ہے اس لیے اس نے فارسی شاعری کی غنائیت کی بات کی ہے اور یہ وہ صفت ہے جو زبان سے لاعلم شخص بھی محسوس کر سکتا ہے۔ میں نہ صرف فارسی زبان سے نابلد بلکہ بمشکل سات آٹھ سال کا بچہ تھا جب مجھے فارسی شاعری کی غنائیت‘ ردھم‘ روانی‘ شاعری کے اندر تشکیل پانیوالی موسیقی اور خون کی گردش کو تیز کرنیوالی لَے کا احساس ہوا۔ سردیوں کی رات کو اباجی مرحوم نظامی گنجوی کے سکندر نامہ‘ فردوسی کے شاہنامہ اور قاآنی کے قصائد میں سے کچھ نہ کچھ سنایا کرتے تھے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے کسی چیز کی‘ کسی بات کی اور کسی شعر کی سمجھ نہیں آتی تھی مگر قاآنی کے قصائد مجھے ایسا لطف دیتے کہ میں ابا جی سے انہیں دوبارہ سنانے کی فرمائش کرتا۔ ابا جی ایک خاص لَے اور سُر میں یہ قصائد سناتے جنہیں سن کر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوتی۔ میں آج قریب پچپن‘ چھپن سال بعد بھی وہ کیفیت محسوس کر سکتا ہوں۔ ابا جی میری محویت دیکھ کر ہنستے اور کہتے: اسے دیکھو‘ فارسی کے دو حرف نہیں آتے اور قاآنی کو ایسے سنتا ہے جیسے فارسی کا علامہ ہو۔ وہ یہ بات میری حوصلہ شکنی یا دل شکستگی کیلئے نہیں محض مذاق میں کہتے تھے۔ وہ مجھے اپنے گرد لپیٹی ہوئی رضائی میں اپنے پہلو میں بٹھا کر رات کو کچھ نہ کچھ سناکر سونے کیلئے جاتے۔ ہمارے ہاں سردیوں کی راتیں بڑی پُررونق اور بڑی مجلسی ہوتی تھیں۔ رات کو بڑے کمرے میں‘ جسے ہم ہال کمرہ کہتے تھے‘ پتھر کی کوئلے والی ایک بڑی سی انگیٹھی جلتی۔ ایک کونے میں پڑے ہوئے غیرمعمولی طور پر بڑے سے پلنگ پر ابا جی رضائی ارد گرد لپیٹ کر بیٹھ جاتے۔ میں ان کے ساتھ پہلو میں گھس کر بیٹھ جاتا۔ دونوں بہنیں سامنے والے پلنگ پر ہوتیں۔ بھائی طارق دوسرے کونے میں موجود چارپائی پر ہوتے۔ سائیڈ والے پلنگ پر ماں جی اور پھپھو بیٹھتیں۔ تاہم ماں جی اٹھتی بیٹھتی رہتیں۔ کبھی چائے لائی جاتی‘ کبھی مونگ پھلیاں اور کبھی چلغوزے کم پڑ جاتے۔ کسی رات کو چاچا یاری کا دیسی گھی میں بنا سوہن حلوہ چلتا اور کبھی گھر کا بنا گاجر حلوہ لطف دیتا۔ جب اماں ممتازی آتیں تب پلنگ پر صرف اماں ممتازی بیٹھتیں اور میری دونوں بہنیں ان کی ٹانگیں دباتیں۔ اماں ممتازی کہانی سناتیں۔ ہم سب گھر والے‘ چچا رؤف اور ان کی ساری فیملی انگیٹھی کے گرد بچھائی ہوئی دری پر روئی کے گدے ڈال کر دیوار سے لگے تکیوں سے ٹیک لگا کر رضائیاں اوڑھ کر کہانی سنتے۔ کیا دن تھے جو پنکھ لگا کر اُڑ گئے۔ سب کچھ تو رخصت ہو گیا۔ حیرانی تو یہ ہے کہ یہ بھی یاد نہیں کہ ڈیڑھ من وزنی کوئلوں والی وہ انگیٹھی کہاں چلی گئی۔
قارئین! اب موضوع سے بھٹک جانے پر کیا معذرت کروں؟ مجھے یقین ہے کہ آپ میری اس بُری عادت کے عادی ہو چکے ہوں گے۔ ویسے آپ کو ایک اندر کی بات بتاؤں کہ میں نے اپنی اس خراب عادت کو کبھی دل سے ٹھیک کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یہ میری ان چند خراب عادات میں سے ایک ہے جو مجھے اچھی لگتی ہیں۔ خراب عادتیں اگر بے ضرر ہوں تو ان سے محبت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بہت سی واقعتاً خراب عادتوں سے محفوظ رکھنے میں بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ بقول جواد شیخ:
کیا ہے جو ہو گیا ہوں میں تھوڑا بہت خراب؍ تھوڑا بہت خراب تو ہونا ہی چاہیے
بات فارسی شاعری کی غنائیت سے چلی تھی اور کہیں اور چلی گئی۔ میں پہلے ہی اعتراف کر چکا ہوں کہ شاعری کے حوالے سے میرا علم محدود ہے اور خاص طور پر اگر عالمی شاعری کے حوالے سے علمی بات کی جائے تو اس نالائق کا علم سمندر میں سے ایک قطرے کی مثال سے بھی کہیں کم درجے کا ہے۔ اس لیے دعویٰ تو رہا ایک طرف‘ خیال اور گمان کو بھی باطل سمجھیں۔ انگریزی شاعری پڑھانے کیلئے ایمرسن کالج میں بابا جلیل تھے۔ ایسے عالم اور ایسے بے مثل استاد کہ ان سے پڑھ کر جانے والے وہ طالبعلم‘ جنہوں نے بعد میں انگریزی لٹریچر میں پاکستانی جامعات یا بیرونِ ملک بڑی نامور یونیورسٹیوں سے انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم از قسم پی ایچ ڈی وغیرہ کی‘ انہیں بارہا کہتے سنا کہ انہیں زندگی میں دوبارہ جلیل صاحب جیسا بے بدل عالم اور استاد نصیب نہیں ہوا۔ بیوہ ماں اور دو بیوہ بہنوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے والے جلیل صاحب نے ساری عمر شادی نہ کی۔ بھلے وقتوں میں آسٹریلیا سے انگریزی لٹریچر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آنے والے جلیل صاحب جنہیں ہم ان کی سر سید احمد خان ٹائپ داڑھی کی وجہ سے بابا جلیل کہتے تھے‘ حسین آگاہی کے آغاز میں ریواڑی سویٹ شاپ کی پرانی دکان کے سامنے مچھلی والے کے پہلو میں واقع مسجد کے حجرے میں رہتے تھے۔ بی اے میں ہمیں انگریزی نثر مرحوم خالد ناصر صاحب اور شاعری جلیل صاحب پڑھاتے تھے۔ انگریزی شاعری ایسی روانی اور ایسے کامل لہجے میں پڑھتے کہ سمجھ نہ بھی آئے تو کم از کم یہ ضرور معلوم ہوتا کہ شاعری ہے اور پورے جوبن پر ہے۔ انگریزی کی شاعری پڑھتے ہوئے اکثر رک جاتے اور اس شعر کا کوئی ہم معانی فارسی شعر سناتے اور پھر اسکی مزید تشریح کرتے ہوئے کوئی اسی مفہوم کا اردو شعر سناتے۔ ہم نالائقوں کو سمجھانے کیلئے علم کا ایسا سمندر بہاتے کہ تب تو بوجھ لگتا تھا‘ آج افسوس اور ملال ہوتا ہے کہ مالک ہم پر کتنا مہربان تھا اور ہم کتنے بدقسمت تھے کہ ایسے نابغہ شخص کے علم کے بہتے ہوئے دریا سے چُلو بھر پانی بھی نہ پی سکے۔ بابا جلیل کی کالج میں سب سے زیاہ دوستی ابا جی سے تھی‘ وہ اپنے مقررہ پیریڈز پڑھانے کے بعد ابا جی کے پاس لائبریری میں آ جاتے اور انکے کمرے کے اندر ایک کونے میں بیٹھ کر قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی ترجمہ کرنے میں مصروف ہو جاتے۔ ریٹائرڈ ہو کر واپس کراچی چلے گئے۔ ابا جی سے خط و کتابت جاری رہی۔ ابھی تفسیر کا کام نامکمل تھا کہ مالک کا بلاواآ گیا۔ خدا جانے نامکمل کام کہاں گیا۔ ڈسپلن کے معاملے میں ایسے سخت کہ خدا کی پناہ۔ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے مگر ایک بار اُن کی کلاس میں نئی پشاوری چپل پہن کر چلا گیا جو ''چیں چیں‘‘ کی آواز نکالتی تھی۔ نشاط روڈ پر چپل بنانے والوں سے خاص طور پر کہہ کر ''چیں چیں‘‘ والی چپل بنوائی۔ جلیل صاحب کی کلاس میں گیا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ جوتی کتنا عرصہ چیں چیں کرے گی؟ میں نے بھولپن میں کہہ دیا: سر! چھ ماہ تو کرے گی۔ رجسٹر اُٹھا کر اگلے چھ ماہ کیلئے میرے نام کے سامنے لکیر لگائی اور کہا کہ فلاں تاریخ کو دوبارہ کلاس میں آؤں۔ یہ بات نہ انہوں نے ابا جی کو بتائی نہ ہی میں نے‘ مگر اگلے چھ ماہ ان سے نگاہیں ملائے بغیر گزر گئے۔ وہ چھ ماہ تب تو مزے سے گزرے مگر آج شرمندگی اور ملال کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
انگریزی شاعری سے تھوڑی بہت شناسائی بابا جلیل کی مہربانی سے تھی۔ فارسی شاعری سے آشنائی ابا جی اور سردیوں کی راتوں کے طفیل ممکن ہوئی۔ عربی شاعری سے سننے کی حد تک شُد بُد پروفیسر اکرم چودھری اور ایک دو دیگر اساتذہ کے حوالے سے ہوئی۔ اردو شاعری بہت سنی اور اس سے زیادہ پڑھی۔ اس محدود سے علم‘ بلکہ علم بھی کیا‘ اس محدود سے تعارف کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ شاعری میں جو غنائیت فارسی شاعری میں ہے وہ اور کسی شاعری میں نہیں۔ اُردو شاعری نے فارسی شاعری کے بطن سے جنم لیا ہے اور اس میں کسی حد تک فارسی غنائیت کے اثرات ہیں۔ اُردو شاعری کا کینوس بڑا وسیع ہے اور اس نے بہت سی دیگر زبانوں کی شاعری سے اثر قبول کیا ہے۔ نظم‘ رباعی‘ مثنوی‘ قصیدہ‘ مسدس‘ مثمن اور مخمس وغیرہ کے علاوہ بھی کئی دیگر اصناف جن میں زبان غیر سے آنے والی ہائیکو اور سانِٹ بھی شامل ہیں تاہم اردو شاعری کے ماتھے کا جھومر بہرحال غزل ہی ہے۔