اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معاشی استحکام کی راہ

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مقصد معاشی استحکام اور جاری منصوبوں کی تکمیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرض پروگرام سے معاشی استحکام کی طرف تیزی سے پیشرفت ہو گی۔ خواہش اور دعا ہے کہ وزیر خزانہ کا کہا من وعن پورا ہو اور ملکِ عزیز کی معیشت کو پائیداری نصیب ہو۔ کاٹ کھانے والے مقابلے کی اس دنیا میں معاشی استحکام بقا کی ضرورت ہے۔ اقبال ؔ کہہ گئے ہیں کہ ’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘۔ اس ضعیفی میں معاشی ضعیفی کو بھی شامل سمجھنا چاہیے۔ ملک عزیز میں وسائل کی کمی نہیں‘ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا فقدان ہے جس نے پاکستان جیسے مالا مال ملک کو معاشی طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔ قرض کے منصوبوں سے ادائیگیوں کا توازن کسی قدر قائم ہوا ہے مگر اب بھی معاشی استحکام کی منزل خاصی دور ہے۔ معاشی استحکام کیلئے قومی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور دولت پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اب جبکہ معاشی حوالے سے حکومت کا اعتماد بحال ہوا ہے تو ضروری ہے کہ دولت کے پیداواری امکانات پر توجہ دی جائے۔ وزیر خزانہ نے گزشتہ روز کی نیوز کانفرنس میں برآمدات میں اضافے اور افراط زر میں کمی کا حوالہ بھی دیا۔ حقیقت یہ ہے برآمدات میں اضافہ اب بھی قابلِ ذکر نہیں۔ ستمبر کے اکنامک اَپ ڈیٹ اینڈ آؤٹ لُک کے مطابق مالی سال 2025ء کے پہلے دو ماہ (جولائی- اگست) کے دوران اشیا کی برآمدات میں اضافہ 7.2 فیصد تھا اور برآمدات کی کل مالیت چار ارب 90 کروڑ ڈالر رہی‘ جبکہ اس دوران ساڑھے نو ارب ڈالر کی درآمدات کی گئیں جو گزشتہ برس کے اس دورانیے میں آٹھ ارب 40 لاکھ  تھیں۔ معاشی استحکام کیلئے برآمدات کو بڑھانا اور خسارہ کم کرنا ہوگا اور اس کیلئے جو اقدامات ضروری ہیں وہ ایک کھلا راز ہیں کہ صنعتوں کو سستی توانائی اور سستے خام مال کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔ ہمیں اس حقیقت کا انکار نہیں کرنا چاہیے کہ زراعت ملک عزیز کی معیشت کا انجن ہے۔ اسی سے اندازہ لگائیں کہ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران برآمدی اشیا میں سب سے زیادہ اضافہ زرعی پیداواری اشیا میں ہوا۔ چاول کی برآمد میں 98.6 فیصد اضافہ ہوا‘ سبزیوں اور پھلوں کی برآمد میں 26.7 فیصد‘ جبکہ ریڈی میڈ کپڑوں کی برآمد میں 17.9 فیصد اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد میں سات فیصد کے قریب اضافہ ہوا۔ اصول یہ ہے کہ جن شعبوں میں نمو کے امکانات زیادہ ہوں ان پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ زراعت کے ساتھ حکومتی سلوک اس کا ثبوت ہے۔ حکومت کو نئی صنعتوں کی ترقی پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے جیسا کہ آئی ٹی ہے۔ ان شعبوں میں برآمدات کی گنجائش بے پناہ ہے مگر خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ گزشتہ برس کے دوران آئی ٹی کی ایکسپورٹس تین ارب 20 کروڑ ڈالر رہیں جبکہ مالی سال 2020-21ء میں آئی ٹی کی برآمدات دو ارب 45 کروڑ ڈالر تھیں۔ یعنی تین برس میں تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا۔ آئی ٹی کی سروسز اور مصنوعات کی بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھا جائے تو اس کی برآمدات کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پانچ‘ چھ برس میں آئی ٹی کی برآمدی آمدنی 15 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھا سکتا ہے۔ اس ابھرتے ہوئے شعبے کے امکانات سے استفادہ کرنے کیلئے حکومت کو خاص توجہ دینی چاہیے۔ معیشت کی بہتری کیلئے سرمایہ کاروں کا اعتماد‘ جس کا وزیر خزانہ نے بھی ذکر کیا‘ بلاشبہ بیحد اہم ہے۔ قدرتی وسائل اپنی جگہ مگر کسی ملک ومعاشرے کی شہرت اس کی معاشی ترقی یا پسماندگی کا تعین کرنے میں از حد اہم ہے۔ بہتر ملکی وقومی تشخص کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر عنصر ہے؛ چنانچہ یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ ترقی کے سبھی اقدامات اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہوسکتے جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں