اعزاز اسے کہتے ہیں‘ آبرو مندی کی فتح بھی۔ اپنے لیے کچھ بھی نہ مانگا‘ قوم کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر باہر نکلے۔ مسلم بنگال کی سرزمین سے فاشسٹ حکمران کو بھگانے کے لیے 900 سے زیادہ نوجوان قربان ہو گئے جن میں اکثریت ینگ سٹوڈنٹس کی تھی جبکہ ابوسعید بنگلہ دیشی‘ حریت کی عالمی علامت بن گیا۔ پاؤں میں سلیپر‘ گلے میں میلی شرٹ اور معمولی سی پتلون پہنے عزم وہمت کا یہ کوہ ہمالہ‘ بنگلہ دیشی آئرن پنجوں والی لیڈی کے رشتہ دار آرمی چیف کی فوج اور سیاسی طور پر بھرتی کی گئی پولیس کے گھیرے میں آ گیا۔ ابوسعیدکو بھاگنے کے لیے موقع دیا گیا اور وارننگ شارٹ ہوا میں فائر کیے گئے۔ ابوسعید نے دونوں ہاتھوں سے شرٹ کا گریبان چاک کیا‘ مردانہ وار چھاتی نکالی اور دونوں بازو پھیلا دیے۔ بے رحم قاتل‘ جو اسی سے تنخواہ لیتے تھے اور ابوسعید جیسے نوجوانوں کی حفاظت کے لیے بھرتی کیے گئے تھے‘ بدقسمتی سے اُس دن اور اُس سے پہلے جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی فاشسٹ عورت کی ناجائز حکمرانی کے لیے کرائے کے ٹٹو کا کردار نبھا رہے تھے۔ اپنی ماں دھرتی کی آزادی کے لیے خالی ہاتھ احتجاج کرنے والے ابوسعید کی ٹانگوں پر گولیاں برسائی گئیں۔ اس بہادر نے اپنی ٹانگوں پہ ایک نظر ڈالی اور پھر سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔ ابوسعید اُس وقت تک کھڑا رہا جب تک اپنوں کی چلائی ہوئی گولیاں اس کی چھاتی پر برستی رہیں۔ پھر دھیرے سے وہ دھرتی ماں کی آغوش میں چلا گیا۔ ابوسعید شہید کا خاموش احتجاجی چہرہ زبانِ حال سے للکار رہا تھا:
مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جاں کی توکوئی بات نہیں
میدانِ وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں؟
عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
ابھی دو روز پہلے ابوسعیدکے خون سے آنے والے انقلاب نے امریکی نوجوانوں کے دل پر دستک دی اور ایک عالمی شناخت حاصل کر لی۔ یہ امریکہ کے کسی چوک چوراہے کی بات نہیں بلکہ بنگلہ دیشی نوجوان انقلابیوں کو دیکھنے اورسننے کے لیے امریکی یوتھ اکٹھی ہوئی تھی۔ ہم جیسے پروٹوکول اور زعمِ برتری کے مارے ہوئے معاشرے کے لیے حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ اس تقریب کے سٹیج سیکرٹری کا کردار سابق امریکی صدر بل کلنٹن ادا کر رہے تھے۔ یہ تقریب Clinton Global Initiative نامی امریکی Think Tank نے لیڈرز سٹیج کے عنوان سے منعقد کی۔ صدر بل کلنٹن‘ جو کافی عمر رسیدہ لگ رہے تھے‘ مائیک پر آئے اور بنگلہ دیش کے سادہ لوح لیڈر محمد یونس کو ان لفظوں میں خطاب کی دعوت دی ''اب میں ایک ایسے شخص کو یہاں آنے کی دعوت دیتا ہوں جو دنیا کی سب سے کم عمر اور نوجوان لیڈرشپ کا رہنما ہے‘‘۔ محمد یونس سٹیج پر آئے‘ بل کلنٹن نے انہیں گلے لگایا اور سامعین سے مخاطب ہوئے ''یہاں آپ کے درمیان بنگلہ دیشی انقلاب کے لیڈرز بیٹھے ہیں۔ میں ان لیڈروں کوسٹیج پر آنے کی دعوت دیتا ہوں‘‘۔ پھر ہاتھ کے اشارے سے محمد یونس نے دو طلبہ لیڈر لڑکوں اور ایک لیڈی سٹوڈنٹ لیڈر کو سٹیج پر بلایا۔ انہیں اپنے ساتھ کھڑا کر کے کہنے لگے: آپ ان چھوٹے چھوٹے سٹوڈنٹس کی عمروں پر مت جائیں۔ یہ ایسا بولتے ہیں کہ جن کے بولنے سے پوری قوم جاگ گئی۔ انہیں ہر وقت مارے جانے کا خطرہ تھا مگر ان کی سٹرٹیجی ایسی تھی کہ انہوں نے بنگلہ دیش کے ہر نوجوان کو اپنا لیڈر بنا دیا۔ آمریت سمجھنے سے قاصر رہی کہ کس کس کو گرفتار کریں۔ جب دنیا کے ان نوجوان لیڈروں کو موت کی دھمکی ملتی تو یہ کہتے: مار ڈالو! ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ادھر ہمارے اپنے گھر میں جمہوریت کے نام پر ماورائے آئین نوٹنکی پاگل اونٹ کی طرح بے سمت بھاگے چلا جا رہا ہے۔ نہ ناک میں نکیل‘ نہ کمر پر کجاوا۔ لاہور میں PTI کے جلسے کے بعد صرف ڈپٹی کمشنر لاہور کے آفس سے پاکستان تحریکِ انصاف کے 487 کارکنوں کی نظر بندی کے احکامات واپس ہوئے۔ شکریہ لاہور ہائیکورٹ کا‘ جس کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر جلسے سے پہلے گرفتاریوں اور نظربندیوں کی خبر باہر نکلی۔ ہفتے کو راولپنڈی کی باری تھی۔ پنڈی نے ایسا پنڈ سجایا کہ ہر طرح کے ڈنڈا بردار یوتھ کو روکنے میں ناکام ہو گئے۔ ہزاروں لڑکے‘ خواتین‘ شہری دن تین بجے سے لے کر رات ایک بجے تک آنسو گیس کی شیلنگ‘ سٹن گرنیڈ‘ لاٹھی گولی کی سرکار کے سامنے ڈٹے رہے۔ ووٹ اور آئین کو عزت دینے والوں نے راولپنڈی میں داخل ہونے والے 25 راستوں کو اَن گنت کنٹینرز‘ پولیس‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکاروں کے مسلح دستے کھڑے کر کے بند کر دیا۔ بند کمروں میں بیٹھے ہوئے فارم 47 والے فرضی وزیروں نے بڑھکیں ماریں‘ ہم کسی کو راستے بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایک لاف زنی میں نمبر لے گیا ‘کہا: جو آئے گا اُس کی ایسی کی تیسی پھیر دیں گے۔ بولنے والے بند کمروں میں بند تھے اور راولپنڈی کے لوگ سڑکوں پر اُن کا منہ چڑا رہے تھے۔ جب سمارٹ فون نہیں آیا تھا‘ اُس وقت جو جھوٹ گُھٹی میں ڈالے گئے وہ سارے پنڈی کے جلسے کے بارے میں وزیروں نے دہرائے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ سنسرشپ کے باوجود سینکڑوں صحافی اور ہزاروں فیس بُک وی لاگرز پنڈی کے کھلے پولیس مقابلے کو لائیو دکھاتے رہے۔
بھارت کے ایک غیر سیاسی مسلم شاعر راحت اندوری مرحوم نے ایمرجنسی کے زمانے کا واقعہ سنایا۔ جب راحت نے کہا: سرکار چور ہے‘ تو دوسرے دن پولیس اُنہیں تھانے لے گئی۔ افسر نے پوچھا: رات مشاعرے میں آپ نے کہا سرکار چور ہے۔ راحت بولے: جی کہا‘ سرکار چور ہے۔ لیکن یہ نہیں بولا کہ ہندوستان‘ پاکستان‘ امریکہ یا برطانیہ‘ کون سی سرکار چور ہے۔ پولیس افسر مسکرایا اور بولا: راحت جی! ہمیں بے وقوف مت سمجھیں‘ کیا ہمیں معلوم نہیں کہاں کی سرکار چور ہے۔
ووٹ چوری سرکار کی سب سے بڑی چوری ہوتی ہے کیونکہ یہ چوری کسی ایک گھرمیں نہیں بلکہ گھر گھر میں نقصان پہنچاتی ہے۔ مار ڈالو! ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے‘ جدید تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال شہیدِ اسلام اور شہیدِ فلسطین جناب حسن نصراللہ غزہ‘ لبنان اور یمن کے حوثی مجاہدوں سے ملتی ہے۔ وڈیو پر حسن نصراللہ شہید نے آخری الفاظ شہید کمانڈر فواد شکر کی شہادت پر کہے جو یہ ہیں: میں جلد ملوں گا اپنے دوستوں سے جب شہادت کا جام پی کر اپنے پیاروں کے پاس جا بسوں گا۔
اِلی اللقاء فی شہادہ
اِلی اللقاء فی جوار الاحِبۃ