کوئی دن کی بات ہے کہ وہ اچھوت برادری‘ جسے اب نان فائلر کہا جاتا ہے‘ ایف بی آر کے حکم پر ملک بھر میں اپنی پیشانی پر ایک پٹی چپکائے پھرا کرے گی‘ جس پر موٹے موٹے الفاظ میں نان فائلر لکھا ہوگا۔ لوگ دور سے دیکھ کر ہی سمجھ جایا کریں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہرگز ملنا جلنا نہیں‘ جس طرح ایک زمانے میں عادی مجرموں سے بچ کر رہا جاتا تھا کہ ہمیں ہی نہ دھر لیا جائے۔ وہ جو سعدی کی حکایت ہے کہ لومڑی بھاگی چلی جا رہی تھی۔ کسی نے پوچھا: خیریت ہے؟ بولی: حاکم نے شہر کے تمام اونٹ پکڑنے کا حکم دیا ہے‘ اس لیے جان بچا کر بھاگ رہی ہوں۔ کہا : لیکن تم تو اونٹ نہیں‘ تم کیوں پریشان ہو؟ بولی: کچھ پتا نہیں کہ یہ کہہ کر دھر لیں ''ایں ہم بچہ شتر است‘‘۔ (یہ بھی اونٹ ہی کا بچہ ہے)
ایف بی آر کی نظر میں نان فائلرز بڑے مجرم ہیں‘ اُن سے بھی بڑے جو بڑی بڑی زرعی زمینوں‘ فیکٹریوں‘ صنعتوں‘ رہائشی سوسائٹیوں کے مالک ہیں لیکن واجبی رقم خزانے میں جمع کراتے ہیں۔ وزیر کس شان سے کہتے ہیں کہ نان فائلرز ایف بی آر میں رجسٹرڈ نہیں‘ اس لیے وہ ٹیکس نہیں دیتے؛ چنانچہ وہ ملک پر بوجھ ہیں۔ انہیں قومی ترقی میں حصہ ڈالنا چاہئے ورنہ... ورنہ ان کا سانس لینا دوبھر کر دیا جائے گا۔ بہت خوب! نان فائلر کو تو یہ کام کرنے چاہئیں۔ اورآپ...؟ آپ کو کیا کرنا چاہیے؟
کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ جو فائلرز ہیں‘ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ خزانے اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں‘ ان کے ساتھ آپ کیا سلوک کرتے ہیں؟ اس ٹیکس کے عوض کیا سہولت فراہم کرتے ہیں؟ کیا ریاست وہ بنیادی سہولتیں دیتی ہے جو اس کے ذمے ہیں؟ تحفظ‘ صحت‘ تعلیم‘ بجلی‘ پانی‘ گیس تو چند بنیادی ضروریات ہیں۔ ان کا کیا حال ہے؟ تحفظ کا یہ حال ہے کہ ہر شہر کے ہر گلی‘ کوچے میں مجبوری میں بیریئر اور گیٹ لگے ہوئے ہیں۔ محلے والے مل کر محافظ رکھنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کا جو حال ہے‘ مریضوں کی جو قطاریں لگی ہوئی ہیں‘ ان کو دیکھتے ہوئے کوئی مجبوری ہی میں ادھر جائے تو جائے‘ ورنہ خون کے گھونٹ پی کر نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کی منہ مانگی رقم ادا کرنا ہی بہتر سمجھتا ہے۔ یہ صحت کی صورتحال ہے۔ تعلیم کا یہ حال ہے کہ خود سرکاری محکمے اُن بچوں کی تعداد کروڑوں میں بتاتے ہیں جنہیں سکول کی بنیادی سہولت بھی حکومت نہیں دے رہی۔ سرکاری سکولوں کے ہوتے ہوئے نجی‘ مہنگے سکولوں‘ کالجوں میں بچے داخل کیے جاتے ہیں کیونکہ سرکاری سکولوں‘ کالجوں کے حالات اور ان کا معیار سب کے سامنے ہے۔ خود سرکاری افسران اور وزرا کے بچے کن سکولوں‘ کالجوں میں پڑھتے ہیں؟ دوسروں کو چھوڑیں‘ سرکاری محکمۂ تعلیم کے افسروں اور سٹاف کے بچے کن تعلیمی اداروں میں داخل ہیں‘ یہ ایک سروے کا موضوع ہے۔ اگر یہ سروے کیا جائے تو نتائج ہوشربا ہوں گے۔ بجلی کے حالات دیکھ لیجیے۔ کون سا شہر لوڈشیڈنگ سے بری ہے؟ اور بجلی کن نرخوں پر عام صارفین اور صنعتکاروں کو دی جاتی ہے؟ لوگ مجبور ہوکر شمسی توانائی کی طرف گئے تو حکومتی لالچی نگاہیں ان کی طرف بھی پڑنے لگیں۔ اسے ظلم نہ کہیں تو کیا کہیں؟ پانی کا حال یہ ہے کہ بہت سے شہر ٹینک مافیا کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔ کراچی‘ جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے‘ وہاں نجی پانی کے ٹینکر نہ ہوں تو آدھا شہر پیاس سے مر جائے۔ لاہور کے بہت سے علاقوں میں پانی کا مسئلہ بہت مدت سے ہے اور اب اس حد تک بڑھ چکا کہ واسا کا فراہم کردہ پانی اکثر علاقوں میں یا تو آتا ہی نہیں یا اتنا بدبودار ہے کہ استعمال کے قابل نہیں۔ میں خود مجبور ہوا کہ بورنگ کروا کے واسا سے جان چھڑا لوں۔ گیس کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ہر شہر میں مخصوص اوقات میں گیس ملے گی‘ وہ بھی نہایت مہنگی۔ لینی ہے تو لو‘ ورنہ گیس سلنڈروں پر رقم خرچ کرو‘ حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں۔
تحفظ‘ صحت‘ تعلیم‘ بجلی‘ پانی‘ گیس‘ یہی تو بنیادی ضرورتیں ہیں لیکن ہر معاملے میں حکومت فارغ ہے‘ نالائق ہے اور ناکام ہے۔ وفاقی حکومت بھی اور صوبائی حکومتیں بھی۔ لیکن خزانے میں ٹیکس جمع کرنا ہو تو ان سے بڑا دانشمند اور لائق پوری دنیا میں نہیں ملے گا۔ کہتے ہیں کہ نان فائلرز ملک پر بوجھ ہیں‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی ملک پر بوجھ ہے تو بہت سے سرکاری ادارے بوجھ ہیں۔ افسران اور عملے کی فوجیں ہیں۔ مقتدر حلقوں کی بدولت ہی ملک کا یہ حال ہوا ہے کہ ایک عام شخص اپنے بچوں کے منہ سے نوالے چھین کر حکومت کو دے رہا ہے۔ اگر بوجھ ختم کرنا ہے تو سب سے پہلے یہ ادارے ختم کریں‘ جن کا مقصد محض لوگوں کو تکلیف دینا ہے۔ کیوں اس نہج پر پہنچاتے ہیں جہاں لو گ دیوار سے لگ جائیں۔ آپ ضرور نئے ٹیکس گزار بنائیں‘ لیکن کیا یہاں بات ختم ہو جاتی ہے؟ حکومتی محکموں کی ذمہ داری آپ پر نہیں؟ پرانے ٹیکس گزاروں کو ا ن کا حق دینا آپ کے فرائض میں نہیں؟
یہ بات بھی غلط ہے کہ نان فائلرز ٹیکس نہیں دیتے۔ کتنے ہی بالواسطہ اور براہِ راست ٹیکس فائلرز‘ نان فائلرز سب ادا کرتے ہیں۔ کوئی ملکی وغیر ملکی چیز ایسی بتا دیں جس پر ٹیکس نہ ہو۔ پانی کی بوتل اور ماچس تک خریدنے پر ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ آٹا‘ چاول‘ چینی‘ دالیں‘ اجناس‘ پٹرول‘ دوائیاں‘ کاروبار۔ کون سی چیز ہے جو ٹیکس کے دائرے سے باہر ہے اور جس پر ہر پاکستانی ٹیکس ادا نہیں کرتا؟ ان ٹیکسوں کے عوض کیا حکومتی ذمہ داری کچھ نہیں؟ آپ کسی بھی سرکاری دفتر میں کوئی بھی جائز کام لے کر چلے جائیے‘ ناممکن ہے کہ رشوت یا سفارش یا دونوں کے بغیر یہ کام ہو سکے۔ ہاں! ناجائز کام ضرور ہو جائے گا‘ اس لیے کہ وہ کام لے آکر آنے والا بھری جیب کے ساتھ آتا ہے۔
بات یہ ہے کہ حکومت صرف خزانہ خالی ہونے‘ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی دہائیاں دے کر بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔کیا آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ رشوت لے کر لوگوں کے جائز کام کرو؟ کیا یہ بھی آئی ایم ایف کے معاہدے میں شامل ہے کہ اوور بلنگ کر کے لوگوں سے اُس بجلی کی قیمت لو جو انہوں نے لی ہی نہیں؟ کیا آئی ایم ایف نے واسا کو پابند کیا ہے کہ تم نے پانی نہیں دینا یا بدبودار پانی فراہم کرنا ہے؟ ان میں بہت سی چیزیں حکومت کی اپنی نالائقی‘ کام چوری اور رشوت خوری کی وجہ سے ہیں لیکن اس پر شرمندگی کے بجائے بڑی شان سے کہا جاتا ہے کہ نان فائلرز ملک پر بوجھ ہیں‘ ہم ان پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔ حضور! بوجھ توآپ ہیں‘ پابندیاں توآپ پر لگنی چاہئیں۔
یہ باتیں پرانی ہیں کہ نان فائلرز نہ بینک اکائونٹ کھول سکتے تھے‘ نہ کاروبار شروع کر سکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ کافی نہیں سمجھا گیا۔ اب وزیر خزانہ نے نان فائلرز پر مزید سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ایف بی آر نے 15 مختلف قسم کی پابندیاں بتائی ہیں جن کے مطابق‘ وہ بیرونِ ملک سفر نہیں کر سکتے‘ جائیداد نہیں خرید سکتے‘ گاڑی نہیں خرید سکتے‘ میوچل فنڈز نہیں خرید سکتے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب ہو کیا رہا ہے اور مزید کیا ہو گا؟ ہو گا یہ کہ ایک عام اَن پڑھ آدمی‘ جو فائلر بننے کا طریقہ نہیں جانتا‘ ٹیکس وکیلوں کے پیٹ بھرے گا‘ اس لیے کہ اسے کوئی دکان یا مکان کرائے پر لینا ہے یا سبزی کی دکان چلانی ہے۔ یہ سب کر کے وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے گا جو ہر سال ٹیکس بھرتے ہیں اور اس کے عوض انہیں حکومت سے صرف خواری ملتی ہے۔ تو بھائی! خوار ہونا تو دونوں طرح ہی مقدر ہے۔
مجھے تو مستقبل میں وہ مناظر نظر آ رہے ہیں کہ رشتہ لے کر جانے والے لڑکے کے والدین لڑکی والوں کے ہاں بیٹھے ہوئے ہیں‘ دونوں خاندان رشتے سے مطمئن ہیں۔ ہر چیز ٹھیک ہے لیکن اچانک پتا چلتا ہے کہ لڑکی سگھڑ اور تعلیم یافتہ تو ہے مگر فائلر نہیں ہے۔ یہ ایسا بھیانک انکشاف ہے کہ لڑکا بے ہوش ہوتے ہوتے بچتا ہے۔ لڑکے کی ماں اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اٹھو جی! گھر چلو۔ اصل بات تو انہوں نے چھپائی ہوئی تھی‘ ہمیں نہیں کرنا یہ رشتہ۔ اچھوتوں میں رشتہ کون کرتا ہے؟