مشرقِ وسطیٰ میں آگ لگی ہوئی ہے۔ آج کل کی نسل غزہ میں نہتے لوگوں کی نسل کشی اور ان کے شہروں اور قصبوں کی تباہی روزانہ دیکھ رہی ہے‘ جس کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بربریت کے اس طوفان کو کم وبیش ایک سال ہوا چاہتا ہے۔ ایک طرف ایک طاقتور بے لگام ریاست اور اس کا بے لگام وزیراعظم ہے اور دوسری طرف محصور فلسطینی ہیں۔ ایک طرف امریکہ اور یورپی ممالک اسلحہ اور اسرائیل کی جارحیت کی معاونت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ دوسری طرف مسلم ممالک کے سربراہان دنیا کے سامنے فلسطینیوں کا مقدمہ مؤثر طریقے سے پیش کرنا تو درکنار‘ اس پر یکساں مؤقف بھی پیش نہیں کر سکے۔ جنگ رکوانا تو ایک طرف‘ چند عرب ممالک‘ جن میں اُردن‘ سعودی عرب اور مصر سرفہرست ہیں‘ پانی اور کھانے پینے کی اشیا کی رسد کے لیے بھی اسرائیل کی اجازت کے محتاج ہیں۔ بے گھر لوگ بے یارو مددگار ایک نئی فوج کشی کو راستہ دینے کے لیے اگر کوئی محفوظ جگہ مل بھی جائے تو وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر کہیں اور ڈیرہ ڈالنے پر مجبورکر دیے جاتے ہیں۔ ایک سال سے مسلسل گولہ باری اور فوج کشی سے غزہ تباہ ہو چکا ہے۔ فلسطین کے صدر نے درست کہا کہ اس صورتحال میں یہ علاقہ انسانی آبادی کے قابل نہیں رہا۔ غزہ کی بربادی کے بعد اسرائیل نے گزشتہ ہفتے سے لبنان کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ ہوائی حملے صرف جنوبی لبنان میں نہیں‘ اب بیروت میں تواتر سے ہو رہے ہیں۔ پرسوں اس کے نتیجے میں شیخ حسن نصراللہ بھی شہید ہو گئے‘ لیکن اس کے بعد بھی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں شہادتوں کی تعداد اب ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ تباہ حال فلسطینی بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ہر طرف ملبے کے ڈھیروں میں لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو تلاش کر کے دفن کا بندوبست کرتے کرتے تھک چکے ہیں اور بے حس دنیا خاموشی سے بربادی کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ اگر کہیں کسی کا مذمتی بیان آتا بھی ہے تو رسمی کارروائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔
یہ کھیل آج کا نہیں‘ بربادی کی یہ داستان ایک صدی پرانی ہے۔ اس کا آغاز پہلی عالمی جنگ کے بعد ہونے والے معاہدوں اور مشرقِ وسطیٰ کی تشکیلِ نو سے ہوتا ہے۔ فلسطینیوں نے کبھی امن دیکھا ہی نہیں۔ وہ ان کے خطے پر اسرائیل کی ریاست کے قیام سے لے کر آج تک‘ اپنی آزادی کے لیے نسل در نسل قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ فلسطین کے حالات کا ایک مختصر ڈائری نما خاکہ ہے‘ وگرنہ انسانی المیے کی یہ داستان بہت طویل ہے۔ فلسطین دیگر علاقوں کی طرح سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ اس سلطنت کے دوران صدیوں تک مسلمان‘ عیسائی اور یہودی اس خطے میں امن وسکون سے رہتے تھے۔ سب کے مذہبی مقامات تھے‘ سب کا تقدس تھا‘ ہم آہنگی تھی اور کبھی مذہبی منافرت دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ مسائل تب شروع ہوئے جب عربوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عَلم بغاوت بلند کیا۔ مغربی اتحادی ممالک جرمنی‘ اٹلی اور ترکی کے خلاف برسرپیکار تھے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ تاریخ میں حریفوں کو اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے داخلی انتشار پیدا کر کے ان کی جنگی حکمت عملی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اس طرح خطۂ عرب میں خصوصاً وہ علاقے جو اَب اردن اور سعودی عرب کی ریاستوں کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں‘ میں ترکوں کے خلاف بغاوت یا جنگ آزادی کے لیے گوریلا کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ عربوں کے قبائلی لشکر ترتیب دینے‘ ان کی تربیت‘ تنظیم اور رہنمائی اور اسلحہ بندی میں برطانیہ کا کردار بنیادی تھا۔ فرانس‘ برطانیہ اور عربوں کے قبائلی سرداروں کے درمیان اتحاد ایک مشترکہ دشمن‘ سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف تھا۔
جنگ ختم ہوئی تو سلطنتِ عثمانیہ سکڑ کر موجودہ ترکیہ تک محدود ہو چکی تھی۔ اس المناک تاریخ کے دو پہلو ہیں۔ دنیائے عرب کی از سر نوجغرافیائی تقسیم عربوں کی قیادت کی بجائے دو مغربی سفیروں نے کی۔ ایک کا تعلق برطانیہ اور دوسرے کا فرانس سے تھا۔ اردن اور سعودی عرب کی بنیاد پہلے رکھی جا چکی تھی۔ شام اور عراق کو ایک ہی خاندان کی مختلف شاخوں میں تقسیم کر کے بادشاہتیں قائم کر دی گئیں۔ یہ اُس زمانے میں ہوا جب نو آبادیاتی ممالک میں لوگوں کے حقوق اور قوموں کے حقوق کی جدوجہد زوروں پر تھی۔ عرب قومیت کا جذبہ بھی اس طرح زور پکڑ گیا مگر وہ سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے لیے ہی استعمال ہوا۔ عرب قومیت سے کوئی انکار نہیں‘ نہ ہی نئی ریاستوں کے قیام سے مگر جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو فلسطین کو بڑی طاقتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اُردن‘ عراق یا سعودی عرب کی نسبت فلسطین زیادہ تعلیم یافتہ‘ منظم اور تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل علاقہ تھا۔ ریاستی تشکیل کے عناصر کو سامنے رکھیں تو فلسطینیوں کی ریاست سب سے پہلے یہاں بننا چاہیے تھی۔ مگر منصوبہ کچھ اور تھا۔
صہیونیت کی تحریک انیسویں صدی کے آخر میں یہودی آبادیوں کے متمول اور تعلیم یافتہ طبقوں میں مقبول ہو رہی تھی۔ اپنی ریاست تو نہیں بنا سکتے تھے‘ مگر ایک منظم طریقے اور خفیہ منصوبہ بندی کے ذریعے وہ اپنے لوگوں کو فلسطین میں آباد کر رہے تھے۔ زمین اور جائیدادیں عربوں اور فلسطینیوں سے خریدتے رہے اور یہ سلسلہ پہلی عالمی جنگ کے دوران زیادہ زور پکڑ گیا تھا۔ بدقسمتی سے عرب قیادت سمجھ ہی نہ سکی اور اس پر کبھی زیادہ توجہ بھی نہیں تھی کہ آخر فلسطین کو ایک وقف بنا کر برطانیہ کے حوالے کیوں کیا جا رہا ہے کہ وہ اس کا انتظام چلائے گا۔ یہ معاملہ بالفور معاہدے (Balfour Declaration) سے شروع ہوا‘ جو ایک وعدہ اتحادی حکومتوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہونے والے اس معاہدے میں یہودیوں کے لیے فلسطین میں قومی ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے خدوخال نمایاں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب کیا تاریخ کا رونا روئیں‘ اور کس کس عرب اور فلسطینی کا نام لیں کہ جو بربادی آپ آج دیکھ رہے ہیں اس کا سکرپٹ ایک صدی پہلے لکھا جا چکا تھا۔ مگر تب بھی اہلِ بصیرت لوگ مغرب میں تو ضرور تھے‘ جو آنے والے وقت کے اشارے پڑھ رہے تھے۔ جس طرح فاتحین نے مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کا نقشہ تیار کیا تھا اور جو اُن کے عزائم تھے اس کے پیش نظر پہلی عالمی جنگ کے دوران فلسطین میں برطانوی فوج کے آفیسر‘ آرچیبالڈ ویول (Archibald Percival Wavell) نے پیرس میں ہونے ولے معاہدوں کے بعد یہ تاریخی کلمات کہے تھے
After the 'war to end war' they seem to have been pretty successful in Paris at making a 'Peace to end Peace'.
('جنگ کو ختم کرنے کے لیے جنگ‘ کے بعد اب وہ پیرس میں 'امن کے نام پر امن کو ختم کرنے میں‘ کامیاب ہو گئے ہیں) آنے والے دور نے ثابت کردیا کہ اُس کے الفاظ بالکل درست تھے۔
اس طرح اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کر کے اس خطے میں دراڑیں ڈال دی گئیں اور یہاں سے امن ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا۔ آج تک فلسطینیوں اور عربوں کی خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں۔ فلسطینیوں نے ہر دور میں مزاحمت کی ہے لیکن انہیں کبھی بھی مسلم ممالک کی عملی حمایت نہیں مل سکی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ان خطرات اور اسرائیلی طاقت اور جارحیت کے باوجود عرب اور ایران تقسیم در تقسیم ہو کر اب اس کے نشانے پر ہیں۔