اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

چینی وزیر اعظم کا دورہ

چین کے وزیراعظم لی چیانگ کے دورۂ پاکستان کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ چین پاکستان کے بہترین اور نہایت مخلص دوست ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہر حال میں اپنا یہ مقام برقرار رکھا ہے۔ پاکستانی قوم کو جن اقوام پر شرح صدر سے اعتماد ہے عوامی جمہوریہ چین ان میں سر فہرست ہے۔ تقریباً سبھی شعبوں میں چین کا تعاون‘ رہنمائی‘ مددا ور حمایت پاکستان کی ترقی کیلئے معاون اور مہمیز ہیں۔ چینی وزیراعظم کا دورہ دوستی کے اس رشتے کو مزید آگے بڑھانے کا سبب بنے گا۔عملاًاس کا آغاز گزشتہ روز دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں اور دستاویزات کے تبادلے کے ساتھ شروع ہو چکا ہے۔ چین کے ساتھ انفارمیشن اور مواصلات‘ سمارٹ کلاس رومز پروجیکٹ‘ چین کو گوشت کی برآمد کے سلسلے میں مشترکہ لیبارٹری اور آبی تحفظ کے شعبے میں مفاہمت پاکستان کی معاشی ترقی میں قابلِ ذکر اضافہ کر سکتی ہے۔ گوادر ایئر پورٹ کا افتتاح بھی ترقی کی جانب ایک بڑا قدم ہے‘ جو گزشتہ روز دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے آن لائن کیا۔ گوادر کو عالمی اور علاقائی سطح کی بندر گاہ اور کاروباری مرکز کے طور پر ترقی دینے کے لیے انٹر نیشنل ایئر پورٹ کی اہمیت واضح ہے‘ اور شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی مناسبت سے یہ پیشرفت مزید اہمیت اختیار کرجاتی ہے کیونکہ گوادر کو علاقائی تجارت کے مرکز کے طورپر ڈویلپ کیا گیا ہے اوریہ وسط ایشیا کی خشکی سے گھری ریاستوں کو بین الاقوامی بحری تجارت سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ علاقائی تعاون اور مشترکہ ترقی کا مقصد حاصل کرنے کیلئے جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا میں زمینی رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تیز رفتار عالمی تبدیلیوں کے نتیجے میں وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا ایک ایسے نازک موڑ پر ہیں جہاں انہیں اپنی بین الاقوامی تجارتی صورتحال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کی نمایاں صلاحیت کے باوجود فی الحال ان خطوں میں اقتصادی روابط کا فقدان ہے۔ اسے بڑھانے کیلئے زمینی روابط کا ترقی یافتہ نظام ناگزیر ہے۔ ملکِ عزیز میں معاشی استحکام یقینی بنانے یا دوسرے لفظوں میں پاکستان کے معاشی امکانات سے پوری طرح ثمر بار ہونے کیلئے چین کے ساتھ تعلق کو بڑھانے کی کوئی آخری حد نہیں۔ ہمیں سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ طب‘ زراعت اورصنعتکاری میں تو چین سے فیضیاب ہونا ہی چاہیے کہ اس شعبے میں اس کے پاس ہمارے ساتھ شیئر کرنے کو بہت کچھ ہے‘ ہمیں تجارتی اور ترقیاتی ماڈل اور تخفیفِ غربت کی کوششوں میں بھی چین سے سیکھنا چاہیے۔ مگریہ کام مستقل مزاجی چاہتا ہے اور اس پر مسلسل کام کی ضرورت ہے‘ جس کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ سیاسی کشمکش کے ماحول میں توجہات اور ترجیحات کا بٹ جانا غیر معمولی نہیں‘ اس کا اندازہ ہم پچھلے کچھ عرصہ کے دوران بخوبی کر چکے ہیں۔ اور اس کے اثرات ترقی کے جاری منصوبوں کی سست روی اور طرح طرح کی رکاوٹوں میں نظر آتے ہیں۔ سکیورٹی کے مسائل ترقی کے مقاصد میں بذاتِ خود بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔پچھلے کچھ عرصہ کے دوران پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرنے والے چینی مہمانوں پر جس طرح کے المناک حملے ہوئے ان سے ظاہر ہے کہ پاکستان اور چین کی قربت اور معاشی شراکت داری کے دشمن انگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کیلئے یہ چیلنج ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے امکانات کی راہ کھوٹی کرنے والے ان سازشیوں کو ناکام اور نامراد کریں۔ نہ صرف سکیورٹی کے انتظامات کو مؤثر بناکر بلکہ ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں پر کام کی رفتار کو تیز کر کے بھی۔ سی پیک جو پاک چین تعلق میں ایک مضبوط گانٹھ ہے اس کے منصوبوں میں تعطل یا تاخیر کا کوئی جواز نہیں‘ نہ اس کی گنجائش ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں