شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی میزبانی پاکستان کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ اس سے پاکستان کے علاقائی اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں خطے کے تمام اہم ممالک شامل ہیں۔ تنظیم کے 10مستقل اراکین میں چین‘ روس‘ قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ بیلاروس‘ پاکستان‘ بھارت اور ایران شامل ہیں جبکہ دو مبصر اور 14ممالک ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں۔ ایس سی او میں شامل ممالک دنیا کی 40 فیصد آبادی اور جی ڈی پی کا تقریباً 30 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے ایس سی او میں شامل ممالک دنیا کے تقریباً 80 فیصد رقبے پر محیط ہیں۔ پاکستان اس تنظیم میں شامل ہو کر علاقائی سیاست میں اہم شراکت دار بن گیا ہے اس لیے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ایس سی او کے کامیاب اجلاس سے دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان میں بدامنی کے حوالے سے جو تاثر پایا جاتا ہے وہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ نے بلاشہ پاکستان کے ہر شعبہ کو متاثر کیا‘ جانی و مالی نقصان اپنی جگہ مگر جو نقصان ہماری سماجی شناخت کو پہنچا وہ ناقابلِ تلافی ہے کیونکہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے پاکستان کے دشمن ممالک کو پروپیگنڈا کا موقع مل گیا۔ پاکستان کا بین الاقوامی تشخص دہشت گردی کی وجہ سے متاثر ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان کو ایک غیرمستحکم ملک کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ سیاحت اور کھیلوں کے میدان تک متاثر ہوئے۔ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں بھی رکاوٹیں حائل ہونے لگیں تاہم ایس سی او کی میزبانی پاکستان کے لیے دنیا کے سامنے اپنی مثبت تصویر پیش کرنے کا اہم موقع ہے۔
ایس سی اوکے فورم سے منسلک مختلف ممالک کے رہنما آج پاکستان میں موجود ہیں۔ عالمی رہنماؤں کی موجودگی سے تعاون کی راہیں ہموار ہوں گی۔ اس فورم کی میزبانی سے ہمیں دنیا کے سامنے اپنی امن پسند پالیسیوں کو پیش کرنے کا موقع ملا ہے جس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔ ایس سی او کی میزبانی سے ہمیں دنیا کے سامنے اپنی اقتصادی ترقی اور پالیسیوں کو پیش کرنے کا موقع بھی میسر آیا ہے۔ اس سے ہمیں بین الاقوامی سطح پر اقتصادی شراکت داری کے فروغ کا موقع ملے گا۔ ایس سی او اجلاس کی میزبانی نے ہمیں دنیا کے سامنے اپنی ثقافت اور روایات کو پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں چین‘ روس‘ بیلاروس‘ قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان کے وزرائے اعظم شرکت کر رہے ہیں جبکہ ایران کے اول نائب صدر ڈاکٹر محمد رضا عارف اور بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر بھی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستان پہنچنے والے ایس سی او کے ممبر ممالک کے وفود میں سب سے بڑا وفد روس کا ہے جو 76 افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون کیلئے کچھ عرصہ سے کوششیں جا ری ہیں۔ دوطرفہ اقتصادی تعاون میں توانائی کا شعبہ اہم ہے۔ روس توانائی کا بڑا برآمد کنندہ ملک ہے جبکہ پاکستان توانائی کی قلت کا شکار ہے۔ پاکستان روس سے گیس اور پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کا خواہاں ہے‘ اس سے ہمیں توانائی کی قلت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسرا اہم شعبہ جس میں پاکستان اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون کے امکانات موجود ہیں وہ زراعت ہے۔ روس ایک بڑا زرعی ملک ہے جس کے پاس پاکستان کی زراعت کو فروغ دینے کی خاصی صلاحیت ہے؛ چنانچہ پاکستان روس سے زراعت کے شعبے میں تکنیکی معاونت اور مشاورت حاصل کر سکتا ہے جس سے ملک کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تیسرا اہم شعبہ جس میں پاکستان اور روس کے درمیان تعاون کے امکانات موجود ہیں‘ وہ دفاع کا ہے۔ روس ایک بڑی دفاعی قوت ہے جس سے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے میں معاونت مل سکتی ہے۔ پاکستان روس سے دفاعی ساز و سامان اور تکنیکی مدد حاصل کر سکتا ہے۔
چین کے وزیر اعظم لی چیانگ بھی ایس سی او اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ یہ 11 سال میں کسی چینی وزیراعظم کا پہلا دورۂ پاکستان ہے‘ جس کا مقصد بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے دو طرفہ تعاون کو نئی تحریک دینا ہے۔ چینی وزیر اعظم 17 اکتوبر تک پاکستان میں قیام کریں گے جن کے ہمراہ تجارت‘ خارجہ‘ قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن کے وزرا بھی ہیں۔ لی چیانگ اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان وفود کی سطح پر سی پیک‘ معاشی تعاون اور دوطرفہ تجارت پر بات چیت شیڈول کا حصہ ہے۔ اس دورے کا ایجنڈا وسیع ہے جس میں دو طرفہ تعاون کو وسعت دینے اور سی پیک کے اگلے مرحلے کو شروع کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ شعبۂ توانائی کے قرضوں کا دوبارہ جائزہ بھی پاکستانی ایجنڈے میں شامل ہے۔ چینی وزیراعظم کے اس دورے کے دوران سی پیک اور دیگر منصوبوں پر کام کرنیوالے چینی شہریوں کی سکیورٹی ایجنڈے میں سرفہرست رہے گی۔ کراچی ایئر پورٹ پر چینی انجینئرز پر حملے کے بعد جو خدشات پیدا ہوئے تھے چینی وزیراعظم کی پاکستان آمد سے ان کا ازالہ ہو چکا ہے۔ چینی وزیراعظم کی پاکستان آمد دونوں ملکوں کے مضبوط تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔
ایس سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی کی جانب سے ڈی چوک میں احتجاج کی کال سمجھ سے بالا تر ہے۔ وقت گزر جائے گا لیکن جس طرح 2014ء میں چینی صدر کے دورۂ پاکستان کے التواکا پی ٹی آئی کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر بھی پی ٹی آئی اپنے اقدام کے دفاع میں کوئی جواز پیش نہیں کر سکے گی۔ایس سی او سمٹ بین الاقوامی فورم ہے اس لیے پی ٹی آئی کو ملکی مفاد میں احتجاج کی کال واپس لے لینی چاہیے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے بھی احتجاج کی کال واپس لینے کی اپیل کی ہے۔ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ حکومت کی اپیل مان لے کیونکہ اس کے اپنے ورکرز بھی مسلسل احتجاج سے تھک چکے ہیں۔ چار اکتوبر کو پی ٹی آئی کے سینکڑوں ورکرز گرفتار ہوئے۔ اکثر کو شکوہ ہے کہ ڈی چوک کے احتجاج میں قیادت ان کے ساتھ موجود نہیں تھی۔ اس لیے پی ٹی آئی کو اب ایک نئے احتجاج کیلئے کارکنان کو جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس بار خیبرپختونخوا سے افرادی قوت ملنے کا امکان بھی کم ہے۔ اگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اس احتجاج میں شرکت نہیں کرتے تو خیبرپختونخوا سے لوگوں کو لانا مشکل کام ہو گا۔
اُدھر تین روزہ پشتون قومی جرگہ اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ جرگے کا فوکس صوبے کے وسائل اور دہشتگردی تھا‘ لیکن ضمنی مطالبات کی ایک طویل فہرست سامنے آئی۔ خیبرپختونخوا کے لوگوں میں صوبے کے قدرتی وسائل کے حوالے سے پائی جانیوالی سوچ نئی نہیں‘ قبائلی اضلاع کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقامی وسائل پر مقامی لوگوں کا حق ہے۔ جرگے نے سکیورٹی فورسز اور دہشت گرد تنظیموں سے دو ماہ میں علاقہ خالی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سکیورٹی فورسز سے علاقہ خالی کرنے کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ سکیورٹی فورسز دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے لوگوں کی جانوں کو محفوظ بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ جب سکیورٹی فورسز قبائلی اضلاع سے نکل جائیں گی تو قبائلی اضلاع دوبارہ دہشتگردوں کی آماجگاہ بن جائیں گے۔ بادی النظر میں جرگے کے مطالبات دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ حکومت چونکہ ایس سی او کی میزبانی میں مصروف ہے اس لیے جرگے کے مطالبات پر کوئی فوری ردِعمل سامنے نہیں آیا لیکن جونہی حالات معمول پر آئیں گے‘ ان مطالبات پر بحث کا آغاز ہو جائے گا۔