اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

26ویں آئینی ترمیم اور اگلا لائحہ عمل

 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے ساتھ پارلیمانی بالا دستی یقینی بنانے کا ایک اہم سنگِ میل عبور ہوچکا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ پیش رفت جمہوری سیاسی جماعتوں کے اجماع سے ممکن ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے اگرچہ اس ترمیمی عمل میں حصہ نہیں لیا تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پی ٹی آئی کو اس کام میں شراکت داری کی صلائے عام تھی۔آئینی ترمیم کے مندرجات اب سب کے سامنے آ چکے ہیں‘ جہاں تک ان ترامیم کے اثرات کی بات ہے تو یہ ظاہر ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جانشیں کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے‘ جو غالباً آج ہی سے کام شروع کر دے گی ۔ اس سے قبل ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سربراہ ایک خود کار نظام کے ذریعے مقرر ہو تا تھا‘ اب پارلیمانی رہنماؤں کی سفارش کی صورت میں جمہور کا مینڈیٹ بھی اس میں شامل ہو گا۔ ملک کے جوڈیشل نظام کے لیے یہ ایک بڑی تبدیلی ہے‘ مگر امید کی جاتی ہے کہ وسیع تر آرا کے شامل ہونے سے اس فیصلے میں زیادہ بہتری آئے گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس ترمیم کے بعد عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے کچھ مزید قانونی ترامیم بھی متوقع ہیں۔ ملکِ عزیز کے عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے اقدامات کی بہت گنجائش ہے تاہم ضروری یہ ہے کہ یہ وسیع تر اہمیت کے حامل اقدامات وسیع سیاسی سوچ کے آئینہ دار ہونے چاہئیں۔ 26 ویں ترمیم کا سنگِ میل عبور کر لینے کے بعد ضروری ہے کہ حکومت دیگر امور میں بھی سیاسی ہم آہنگی سے کام کرے۔ معاشی شعبے میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘ یہ کام اگر سیاسی ہم آہنگی کے ماحول میں ہو تو اس کے نتائج زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ پچھلے دو‘ تین برس کے دوران معاشی تنزلی کے اسباب میں سیاسی عدم استحکام ایک اہم محرک تھا۔ اب اگر سیاسی جماعتیں ایک مشترکہ عزم کے ساتھ کام کرنے کا ذہن بنا چکی ہیں تو یہ 26 ویں آئینی ترمیم تک محدود نہ رہے۔ جس طرح حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے دن رات ایک کر دیے‘ معاشی استحکام کی کوششوں میں بھی یہ اشتراکِ کار نظر آنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اگر پارلیمانی بالا دستی کے تصور کے ساتھ یکجا ہو کر جدوجہد کریں تو پاکستان کا کوئی مسئلہ بھی ایسا نہیں جس پر قابو پانا ممکن نہ ہو۔ دنیا کی مثالیں موجود ہیں کہ جب باصلاحیت سیاسی قیادت بروئے کار آتی ہے تو عشروں کا سفر برسوں میں اور مہینوں کا دنوں میں طے ہوتا ہے۔ پاکستان ابھی اس منزل کا متلاشی ہے۔ ابھی ہم جمہوری استحکام کی کوششوں میں ہیں اور پارلیمان ملکی امور پر اپنی بالادستی یقینی بنانے کی جستجو کررہی ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے ساتھ پارلیمان کا مطمح نظر کافی حد تک حاصل ہو گیا ہے ۔ اب قوم کو اس کے ثمرات لوٹانے اور یہ ثابت کرنے کا وقت ہے کہ سیاسی جماعتوں کو موقع ملے تو وہ کارکردگی دکھا نے میں پیچھے نہ رہیں۔ اس آئینی ترمیم کے بعد پارلیمان کی مضبوطی کا اگلا قدم سیاسی ہم آہنگی کی جانب اٹھنا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی سیاسی اتحاد کے مابین جو خلیج ہے یا آگ کا دریا‘ اسے پاٹنا ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف سیاسی حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ اس کے نقصانات کو زیرک سیاستدان بہتر سمجھ سکتے ہیں؛چنانچہ یہ وقت زخموں پر نمک پاشی ‘ زہر بجھے تیر چلانے اور انتشار بڑھانے کا نہیں۔ پاکستان کا مفاد سیاسی بحران کو کم کرنے اور جہاں تک ممکن ہو مفاہمت کو فروغ دینے میں ہے۔سیاسی حلقوں میں اگر یہ سوچ پنپ سکے تو 26 ویں آئینی ترمیم پارلیمانی بالادستی کے لیے بڑی پیش رفت بن سکتی ہے ۔ اگر روایتی سیاست کا چلن رہا تو یہ اندیشہ خارج از امکان نہیں کہ یہ کوشش جو بادی النظر میں سیاسی اتحاد کی علامت ہے ‘ انتشار کی سیاست کے ہاتھوں اپنے ثمرات گنوا بیٹھے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں