عدالتی اصلاحات
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ جب تک نچلی عدالتوں میں اصلاحات نہیں کی جاتیں‘ چھبیسویں آئینی ترمیم کا ایجنڈا نامکمل رہے گا۔ گزشتہ روز کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ عوام کا سب سے زیادہ واسطہ نچلی عدالتوں سے پڑتا ہے‘ جب تک وہاں ریفارمز نہیں کی جاتیں‘ عوام کو ریلیف نہیں پہنچایا جا سکتا۔ دوسری جانب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت عدالتی اصلاحات سے متعلق اجلاس میں نظام انصاف کو بہتر بنانے سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس میں نظام انصاف کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ماتحت عدلیہ اور نظام انصاف کے ہر شعبے میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس وقت نظام عدل کو بہت سے مسائل درپیش ہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ زیر التوا مقدمات کا بیک لاگ ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملکی عدالتوں میں اس وقت مجموعی طور پر 30 لاکھ سے زائد کیس زیر التوا ہیں۔ سب سے زیادہ کیس صوبائی عدالتوں میں زیر التوا ہیں‘ صرف لاہور ہائیکورٹ میں کیسوں کی تعداد 14 لاکھ ہے۔ ملک کی ضلعی عدلیہ میں دائر ہونے والے کیسوں کی تعداد بھی ہوشربا ہے۔ گزشتہ سال کے آغاز پر ضلعی عدالتوں میں 17 لاکھ 83 ہزار 826 مقدمات زیر سماعت تھے اور ایک سال کے عرصے میں 38 لاکھ 72 ہزار 686 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا مگر اسی دوران 38 لاکھ 22 ہزار 881 نئے مقدمات دائر ہوئے‘ جس کے بعد 17 لاکھ 54 ہزار 947 مقدمات زیر التوا رہے۔ ان اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ کیسوں کو نمٹانے کی رفتار بڑھانے کے ساتھ ساتھ نئے مقدمات کی رفتار کا جائزہ لینا بھی ازحد ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے پہلے آئینی بینچ نے اپنے پہلے روز 18 مقدمات پر سماعت کرتے ہوئے بے بنیاد مقدمہ بازی پر 15کیسز خارج کیے اور بے مقصد درخواستوں پر 60 ہزار روپے کے جرمانے بھی عائد کیے گئے۔ اس دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایسی ہی درخواستوں کے سبب سپریم کورٹ میں 60ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔ یعنی زیر التوا اکثر کیس بے بنیاد اور عدالتی وقت ضائع کرنے کی کوششوں کے مترادف ہیں۔ اگر عدالتی نظام کو زیادہ موثر اور کارکردگی کو بہتر بنانے کی بات کی جائے تو ای کورٹس کا کافی حوصلہ افزا نتیجہ سامنے آیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ان عدالتوں نے کم وبیش 75 فیصد زیر التوا کیس نمٹائے ہیں۔ ان کے ذریعے دور دراز علاقوں کے سائلین بھی آن لائن کیس فائل کر سکتے ہیں اور کیس کی پیروی کیلئے درخواست گزاروں اور وکلا کو آن لائن وڈیو کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ اسی طرح ماڈل کورٹس اور مصالحتی کونسل کی کارکردگی بھی مثبت رہی ہے۔ زیر التوا کیسوں کو نمٹانے کے لیے جہاں کیس مینجمنٹ اور کورٹ ایڈمنسٹریشن کو بہتر بنانے اور ای فائلنگ اور وڈیو کانفرنسنگ جیسی جدید ٹیکنالوجی سے عدالتی عمل کو ہموار اور کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے‘ وہیں پولیس اور پراسیکیوشن کے نظام میں اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔ فرسودہ تفتیشی نظام اور پولیس کے وسائل کی کمی اور رشوت و کرپشن جیسے عوامل عدالتی بوجھ بڑھانے میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ بلاول بھٹو کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ عدالتی اصلاحات اور آئینی بینچ اسی وقت مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں جب نچلی عدالتوں کا نظام بہتر بنایا جائے۔ عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اسی وقت ادا ہو سکتی ہے جب تمام طبقات اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں؛ وکلا کیس کو جلد نمٹانے کی سعی کریں‘حکومت قانونی سقم دور کرے اور عدالتی عملے اور ججوں کی خالی سیٹیں پُر کرے اور پولیس اور استغاثہ اپنی تحقیقات کو مضبوط کریں۔اس کے بعد ہی عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے وعدے کی تکمیل ممکن ہے۔