سموگ کے اثرات
رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ادارے ’اپسوس‘ کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سموگ کی وجہ سے ہر 10میں سے سات افراد کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ سروے کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران سموگ سے شدید متاثرہ صوبے‘ پنجاب میں 20لاکھ افراد کو سانس لینے میں دشواری اور امراضِ تنفس کے دیگر مسائل کے علاج کے لیے ہسپتال جانا پڑا۔ائیر کوالٹی لائف انڈکس کے مطابق ہوا میں ذراتی آلودگی کی سطح میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستانی آلودگی کی ایسی بلند سطح کا شکار ہیں جو رواں صدی کے آغاز کے مقابلے میں 22.3 فیصد زیادہ ہے۔ یہ اضافہ خاص طور پر تشویشناک ہے کیونکہ یہ سانس اور امراضِ قلب میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اس وسیع پیمانے پر آلودگی کے نتائج خطرناک ہیں کہ اس سے شہریوں کی اوسط عمر چار سال کم ہوچکی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران نہ صرف لاہور بلکہ ملتان کا ایئر کوالٹی انڈیکس بھی کئی دفعہ ایک ہزار پوائنٹس کی حد عبور کر چکا ہے‘ جبکہ ماہرینِ صحت 100سے زیادہ ایئر کوالٹی انڈیکس کو انسانی صحت کیلئے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے سموگ کے تدارک کے لیے دس سالہ پالیسی کا اعلان کیا ہے لیکن اصل کام اس پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے۔ سموگ صرف پنجاب تک محدود نہیں رہی بلکہ رواں برس پشاور اور کراچی بھی سموگ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں‘ اس لیے ان صوبوں کی حکومتوں کو بھی فضائی آلودگی کے بروقت تدارک پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔