چیلنجز سے نمٹنے کا عزم
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ قوم کی حمایت سے افواج ملک کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنا دیں گی۔ گزشتہ روز نارووال اور سیالکوٹ میں فیلڈ ٹریننگ مشقوں کا معائنہ کرتے ہوئے آرمی چیف نے دشمن کی طرف سے کسی بھی طرح کے خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے مستقل تیاری کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت وطنِ عزیز کو اندرونی اوربیرونی محاذوں پرکئی چیلنجزدر پیش ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں شر پسندوں اور دہشت گرد وں کی کارروائیوں میں اضافہ ہو ا ہے اور دوسری جانب سیاسی عدم استحکام پورے ملک کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ قومی سلامتی کے چیلنجز ہوں یا سیاسی بے چینی‘ ہر دو خطرات سے متحد ہو کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔مگر بد قسمتی سے ہمارے سیاسی طبقات اس قومی تقاضے کا ادراک نہیں کر پا رہے اور اپنی اپنی ضد اور انا کے مقید ہیں۔ یہ سیاسی انتشار پاکستان کے اصل دشمنوں کی حوصلہ افزائی کرتا اور ان کے ناپاک ارادوں کے لیے سازگار حالات پیدا کرتا ہے۔ نظریاتی سرحدوں پر حملوں میں سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف منفی مہم بھی ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح افواہیں اور خلاف حقیقت واقعات گھڑ کر ریاست اور اداروں کے خلاف لوگوں کے کان بھرے اور آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ دورِ جدید میں سکیورٹی کا تصور ہمہ جہت ہے اوراطلاعات کی ترسیل کے نت نئے وسائل کے اس دور میں سکیورٹی چیلنجز نئے روپے اختیار کر چکے ہیں۔ فی زمانہ دہشت گردی کا کردار اور سہولت کارہی مسئلہ نہیں سائبر ذرائع سے عوام کو ان کے ملک اوراداروں کے خلاف اکسانے والا گمنام کردار بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ یہ نئے سکیورٹی چیلنجز اگرچہ براہِ راست جنگوں سے وابستہ نہیں مگر یہ ریاست اور معاشرے کے لیے بقا کے سنگین خطرات پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان چیلنجزکو ترجیحاً دیکھنا اور ان کا سدباب کرنا ضروری ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ سکیورٹی ادارے ہر قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں مگر یہ بھی درست ہے کہ قوم میں اتحاد اور ہم آہنگی نہ ہوتو سکیورٹی کے چیلنجز سے نمٹنا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ سیاسی انتشار اور عدم استحکام کو بظاہر سیاسی حریفوں تک محدودسمجھا جاتا ہے مگر اس کے اثرات سماج کے تارو پود کو توڑ پھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کا معاشرہ سیاسی بنیادوں پر اس وقت جتنا تقسیم ہو چکا ہے‘ پہلے ایسا کبھی نہ تھا۔ سیاسی جماعتوں کا کام سماج کو متحد کر کے ملک کو آگے لے جانا ہوتا ہے‘ اگر سیاسی جماعتیں بے بنیاد اختلافات اور لایعنی مباحث میں الجھ کر برداشت اور رواداری سے دور ہو جائیں تو معاشرے پر اس کے منفی اثرات کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ مضبوط ریاستی سکیورٹی کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی و سماجی حلقے یہ عزم کریں کہ سکیورٹی معاملات کو غیر متعلق سیاسی معاملات سے ماورا رکھا جائے گا اور انہیں سیاسی بحث میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی کردار جب قومی اداروں کو سیاسی اکھاڑے میں کھینچتے ہیں تو ان کے وقار کو زک پہنچاتے ہیں۔ سیاسی کردار بزعم خود اداروں کی طرفداری کررہے ہوتے ہیں مگر حقیقت میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔ قومی اداروں کی توقیر مجروح کرنے کی اس روش کی بھی روک تھام ہونی چاہیے۔ مضبوط سکیورٹی انتظامات سرحدوں کو محفوظ بناتے ہیں مگر داخلی تقسیم کسی سماج کو اندر سے کھوکھلا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ قومی یکجہتی کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی محاذ پر اَنا ‘ ضد‘ ہٹ دھرمی اور کینہ پروری کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے۔ سیاست میں نظری اختلافات کو نفرتوں میں نہیں ڈھلنا چاہیے۔ ملک کی خاطر ذاتی مفادات اور خواہشات کو قربان کر نے کی ضرورت ہے کہ مل جل کر آگے بڑھا جاسکے۔ پاکستان ہم سب کا ہے اور اس کی حفاظت ‘ ترقی اورخوشحالی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔