انسانی سمگلنگ اور حکومتی ذمہ داری
یونان میں تارکینِ وطن کی کشتی کو پیش آئے حادثے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی مجموعی تعداد 40 تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں بعض کم سن بھی شامل ہیں۔ گزشتہ برس جون میں 300 سے زائد پاکستانیوں کی یونانی سمندر میں المناک موت کے بعد غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کے خواہشمند افراد کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں تھیں کہ وہ اپنی زندگیوں سے نہ کھیلیں لیکن بدقسمتی سے اس رجحان میں کمی نہیں آ سکی۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق اب بھی لیبیا میں پانچ ہزار ایسے پاکستانی موجود ہیں جو غیرقانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ حکومتی سطح پر انسانی سمگلروں کے خلاف سخت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے یہ عناصر شہریوں سے بھاری رقوم بھی لیتے ہیں اور انکی زندگیاں بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف نے یونان کشتی حادثے کے بعد شہریوں کو جھانسہ دے کر باہر بھجوانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے‘ گزشتہ برس جون میں پیش آنے والے کشتی حادثے کے بعد بھی حکومت کی طرف سے ایسے ہی دعوے سامنے آئے تھے۔ اگرتب موت کا کاروبار کرنے والے ان عناصر کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا تو شاید دوبارہ ایسا حادثہ پیش نہ آتا۔ انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائی کے ساتھ حکومت نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع بھی فراہم کرے۔ اس ضمن میں والدین پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسے خطرناک سفر پر بھیجنے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرنے پر قائل کریں۔