مذاکرات کے امکانات
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے لیے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کی جانب سے سہولت فراہم کرنے کی پیشکش ایک مثبت پیشرفت ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن میں تلخیاں ختم کرنے کے لیے مذاکرات ضروری ہیں‘ سیاسی ایشوز سمیت کسی بھی معاملے پر مذاکرات میں کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے تو حکومت کو مذاکرات کا پیغام بھیجے۔ پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے بھی سیاسی قائدین کو مل بیٹھنے کا مشورہ دیا ہے‘ ان کا کہنا تھا کہ جب تک سیاسی قوتیں ایک ہو کر نہیں بیٹھیں گی‘ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہفتے‘ عشرے سے دونوں اطراف سے مذاکرات پر آمادگی کے باوجود ابھی تک ایک بھی مذاکراتی بیٹھک کا نہ ہونا سیاسی حلقوں کی ناکامی ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت سیاسی مناقشے کے بنیادی فریق ہیں مگر دیگر سیاسی جماعتیں کنارے پر کھڑی ‘ اس سارے منظر نامے سے لاتعلق دکھائی دیتی ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ نوابزادہ نصر اللہ خان‘ مولانا مودودی‘ مفتی محمود‘ باچا خان اور بینظیر بھٹو جیسے مفاہمتی سیاست کے علمبرداروں سے عبارت ہے۔ مذکورہ سیاسی رہنمائوں نے ملکی سیاسی تاریخ میں جو کردار ادا کیا اس کی مثال دی جاتی ہے۔ فروری 2005ء میں جدہ میں پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم کی ملاقات کو کون فراموش کر سکتا ہے جس نے ماضی کو بھلا کر مفاہمتی سیاست اور باہم مل کر چلنے کے ایک نئے سیاسی باب کا آغاز کیا۔ اس ملاقات کے ثمرات محض ڈیڑھ سال بعد میثاق ِجمہوریت جیسی دستاویز کی صورت میں سامنے آئے۔ اپنی سیاسی تاریخ سے نابلد آج کے متحارب سیاسی فریق اپنی اپنی انا کے مقید نظر آتے ہیں جو مذاکرات میں پہل کرنے کو اپنی ناکامی یا کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی لیے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ کوئی تیسرا فریق ان کو مذاکرات کی میز پر یکجا کرے تاکہ باہم مشوروں سے دلوں کی الجھنیں اور کدورتیں دور ہو سکیں۔ ایسے میں سپیکر قومی اسمبلی کی پیشکش تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ اگر وہ اس حوالے سے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل اور دونوں کمیٹیوں کی بیٹھک کے انعقاد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے برف پگھلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس وقت قوم جس نہج کے سیاسی اختلافات اور انتشار کا شکار ہے‘ اس کا الزام کسی ایک فریق کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں ہی سے بجتی ہے۔ مفاہمت اور ہم آہنگی کے ماحول کے لیے ضروری ہے کہ اختلافات اور ماضی کی تلخ یادوں کو پس پشت ڈال کر ایک نئی ابتدا کی جائے۔ حکومت اور تحریک انصاف‘ دونوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ سیاسی ٹکرائو کے اس ماحول میں مفاہمت کا جو موقع ابھر رہا ہے یہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے‘ جسے کسی صورت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ پچھلے تین برس سے سیاسی حلقوں کی توجہ مذاکرات اور مفاہمت کی جانب دلائی جا رہی ہے اور اگر یہ کوشش پہلے ہو جاتی تو نہ صرف ملک شدید سیاسی بحران سے محفوظ رہتا بلکہ معاشی صورتحال بھی آج بہتر مقام پر ہوتی۔ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ حالیہ سیاسی بحران نے ملک کو ہمہ جہتی نقصان پہنچایا ہے اور اس کے منفی اثرات سماج کی جڑوں تک میں سرایت کر چکے ہیں۔ ضروری ہے کہ سیاسی رہنما اب کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور سپیکر قومی اسمبلی کی سہولت کاری کی آفر سے فائدہ اٹھائیں۔ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم‘ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی فریقوں کو بھی آگے بڑھنا چاہیے اور ایسے سیاسی میثاق پر اتفاقِ رائے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے ذریعے ملکی گاڑی ہموار انداز میں آگے بڑھتی رہے اور کوئی سیاسی بحران اس کی رفتار پر اثر انداز نہ ہو سکے۔